شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
قرآن مجید جس عہد اور جس سماج میں نازل ہوا ، اس کا سب سے تکلیف دِہ پہلو لاقانونیت ، بدامنی اور غارتگری تھا ، لا قانونیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جزیرۃ العرب میں باضابطہ کسی حکومت کا وجود نہیں تھا ، عرب کے گرد و پیش جو حکومتیں قائم تھیں ، وہ نسلی برتری اور کہتری پر یقین رکھتی تھیں اور جو انسانی سماج پیدائشی عظمت اور تحقیر کے تصور پر قائم ہو ظاہر ہے کہ وہاں عدل و انصاف کا قائم ہونا ممکن نہیں ، ایسے ماحول میں اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کے نزول کا آغاز ہوا، اس کتاب میں جو سب سے پہلی آیت نازل ہوئی، اس میں علم اور قلم کی اہمیت کو بتایا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ تمام انسان کا مادۂ تخلیق ایک ہی ہے ، اس میں انسانی وحدت کی طرف اشارہ تھا ، علم انسان کو قانون کا پابند بناتا ہے اور انسانی مساوات کے تصوّر سے عدل کا جذبہ اُبھرتا ہے اور تکریمِ انسانیت کا عقیدہ پروان چڑھتا ہے ؛ اسی لئے ایک ایسا ملک جو امن و امان سے یکسر محروم تھا او ر جہاں ظلم و جور اور دہشت گردی نے قانون کا درجہ حاصل کر لیا تھا ، اسلام نے اس کو امن و سلامتی سے ہمکنار کیا ، انسانی اُخوت کا سبق پڑھایا اوررسول اللہ ﷺ کی وہ پیشین گوئی پوری ہوئی کہ ایک خاتون تنہا اونٹنی پر سوار ہو کر حیرہ (عراق) یمن سے شام تک کا سفر کرے گی ۔ (بخاری، باب علامۃ النبوۃ فی الاسلام، حدیث نمبر: ۳۵۹۵)
اس نے اپنے متبعین کے لئے دو ایسی تعبیرات اختیا رکیں، جن کے معنی ہی ’’ امن و امان ‘‘ اور ’’صلح و سلامتی ‘‘ کے ہیں ، یعنی ’’ مومن اور مسلم ‘‘ مومن کے معنی امن دینے والے کے ہے اورمسلم کے معنی صلح اور دوسروں کی سلامتی کا لحاظ رکھنے والے کے ، اس کتاب کی ابتداء ’’ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ‘‘ سے ہوئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ِعامہ ، اور آپ ﷺکے مہربان ہونے کا ذِکر ہے اور پہلی سورت کی پہلی آیت میں ہی خدا کو ’’ تمام کائنات کا رب ‘‘ قرار دیا گیا ہے، رب کا لفظ بے پناہ شفقت اور ممتا کو ظاہر کرتا ہے اور تمام عالم کا رَب کہہ کر پوری کائنات کو رشتۂ اُخوت میں باندھ دیا گیا ہے اور ایسی آفاقیت کا تصور دیا گیا ہے کہ جس میں پوری انسانیت ایک کنبہ اور ایک خاندان کا درجہ رکھتی ہے ، غرض کہ قرآن مجید امن و امان ، انسانی اُخوت اورآفاقیت کا علمبردار ہے ؛ لیکن بدقسمتی سے سورج پر تھوکنے کی کو شش کی جارہی ہے اور بعض تنگ نظر حضرات یہ کہنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ قرآن مجید میں کچھ نقص ہے ، جس کی وجہ سے اس کتاب کے پڑھنے والوں میں دہشت گردی کا رجحان پیدا ہوتا ہے ، یہ ایسی بہتان تراشی ہے کہ کوئی ایسا شخص جس نے سر سری طور بھی قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہوگا ، وہ ہر گز اس سے متاثر نہیں ہو سکتا ، کہ یہ دن کو رات اور برف کو آگ کہنے کے مترادف ہے !
عربی زبان میں دہشت گردی کو ’’ ارہاب‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، قرآن نے مسلمانوں کو یقیناً اس بات کی تعلیم دی ہے کہ ان کے پاس ایسی طاقت موجود رہنی چاہئے کہ ان کے دشمنوں کو ظلم وجور کے ارتکاب کی ہمت نہ ہو اور وہ مرعوب رہیں ، اس کو قرآن نے ’’ قوت مرہبہ ‘‘ سے تعبیر کیا ہے ؛ چنانچہ ارشاد ہے :
وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اﷲِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ اﷲُ یَعْلَمُھُمْ ۔ (الانفال : ۶۰)
ان کے لئے جس قدر ممکن ہو طاقت اور گھوڑے تیار کر کے رکھو ؛ تاکہ تم اس کے ذریعہ اللہ اور اپنے دشمن اور دوسرے لوگ جنھیں تم نہیں جانتے ؛ لیکن اللہ انھیں جانتا ہے ، مرعوب رکھ سکو ۔
قرآن کے اس بیان سے واضح ہے کہ طاقت دشمنوں کو مرعوب رکھنے اور ان کو ظلم وجور سے باز رکھنے کے لئے ہے ، نہ کہ بے قصور لوگوں کو نشانہ بنانے اور تباہی و بربادی پھیلانے کے لئے ۔
قرآن کے احکام ِجہاد سے یہ غلط فہمی پیدا کی جاتی ہے کہ وہ بے قصور ، کسی بھی غیر مسلم پر حملہ کرنے اور اس کو ہلاک کر دینے کی اجازت دیتا ہے اور اس کے لئے اس آیت کو پیش کیا جاتا ہے ، جس میں کفار کو قتل کرنے کا عمومی حکم ہے ، یہ محض غلط فہمی ہے ، اس آیت کا تعلق مشرکین مکہ سے ہے ، وہ مستقل طور پر مسلمانوں سے بر سرِجنگ تھے اور مسلمانوں کی طرف سے کی جانے والی صلح کی کوششوں کو قبول کرنے کے لئے قطعاً تیار نہیں تھے ؛ چنانچہ جو لوگ مسلمانوں سے برسرِپیکار نہ ہوں اور جن لوگوں نے ان کو گھر سے بے گھر اور شہر سے شہر بدر نہیں کیا تھا ، قرآن ان کے ساتھ حسن سلوک اور عدل و احسان کا حکم دیتا ہے ؛ چنانچہ ارشاد ہے :
لَایَنْہَاکُمُ اﷲُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَ تُقْسِطُوْا اِلَیْھِمْ اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ (الممتحنہ : ۸۱)
اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ بہتر سلوک اور انصاف سے نہیں روکتے ، جو تم سے دین کے معاملہ میں برسرِپیکار نہیں ہیں اور جنھوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا نہیں ہے، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں ۔
دہشت گردی میں بنیادی طور پر اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی کہ اصل ظالم کون ہے ؟ بلکہ اس کے متعلقین میں جو بھی ہاتھ آجائے ، اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، اسلام نے اس کو قطعاً غیر اُصولی اور غیر انسانی حرکت قرار دیا ہے ، قرآن نے قاعدہ مقرر کر دیا ہے کہ ایک شخص کی غلطی کا بوجھ اور اس کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جاسکتی : لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی (الفاطر:۱۸)
قرآن نے ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا ۔ (المائدہ: ۳۱)
قرآن نے ان اسباب کو بھی روکنے کی کوشش کی ہے جو دہشت گردی کا موجِب بنتے ہیں ، زیادہ تر دہشت گردی کا سبب یہ بات ہوتی ہے کہ لوگ دوسروں کو جبراً اپنے مذہب و عقیدہ کا متبع بنانا چاہتے ہیں ، عیسائیوں کی مذہبی تاریخ اس کی کھلی ہوئی مثال ہے ، قرآن مجید نے صاف اعلان کر دیا کہ دین کے معاملہ میں جبر و اِکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے : لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ (البقرہ: ۲) اس لئے اس بات سے بھی منع کیا گیا کہ کوئی گروہ دوسروں کے مذہبی مقتداؤں اور پیشواؤں کو بُرا بھلا کہے ، کہ اس سے جذبات مشتعل ہوتے ہیں : لاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ (الانعام: ۱۰۷)
کسی معاشرہ میں دہشت گردی کے پنپنے کا اصل سبب ظلم و ناانصافی ہے ، جو گروہ مظلوم ہوتا ہے ، اگر وہ ظالم کا مقابلہ نہیں کرپاتا ہے اور انصاف کے حصول سے محروم رہتا ہے ، تو اس میں منتقمانہ جذبات پرورش پاتے ہیں ، اور جب وہ دیکھتا ہے کہ قانونی راستے بند ہیں ، تو غیرقانونی راستہ اختیار کر لیتا ہے ، اس لئے دہشت گردی کو روکنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ معاشرہ میں ظلم و جور کا دروازہ بند کیا جائے ، اور عدل و انصاف کو پوری غیرجانبداری کے ساتھ نافذ کیا جائے ؛ تاکہ دہشت گردی پر اُبھارنے والے عوامل باقی نہ رہیں ؛ اسی لئے قرآن نے جگہ جگہ عدل کا حکم دیا ہے اور اس کی بڑی تاکید کی ہے ، ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کا حکم دیتے ہیں : اِنَّ اﷲَ یَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ (النحل: ۹۰) قرآن نے تاکید کی ہے کہ کسی قوم سے عداوت بھی تم کو اس کے ساتھ ظلم و ناانصافی پر کمربستہ نہ کردے اور جادۂ عدل سے ہٹانے نہ پائے ۔ (المائدہ:۸)
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عالم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہایت شدت کے ساتھ دہشت گرد ہونے کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے ؛ حالاںکہ خود مسلمان ملکی اور عالمی دہشت گردی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ، جن ملکوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں مسلمانوں کی حالت ِزار ناقابل بیان ہے ، مسلمان اگر اپنے ملک میں بھی خود اپنی خواہش اور مرضی سے اسلامی نظامِ ِحیات کو نافذ کرنا چاہتے ہیں تو ان کو تہذیبی تصادم اور شدت پسندی کا نام دے کر مداخلت کی راہ ہموار کی جاتی ہے اور ان سے وہی کچھ کہا جاتا ہے، جو انبیاء کی اقوام ان سے کہا کرتی تھیں ، مثلاً حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا :
قاَلَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَا اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا۔ (الاعراف:۸۸)
حضرت شعیب کی قوم میں سے تکبر پر آمادہ گروہ نے کہا کہ اے شعیب ! ہم تجھ کو اور تیرے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنے شہر سے نکال کر ہی رہیں گے ، یا تو تم ہمارے دین میں واپس آجاؤ ۔
آج ہندوستان میں فرقہ پرستوں کی طرف سے نعرہ لگایا جاتا ہے ’’ کہاں جائے گا مسلمان ؟ پاکستان یا قبرستان ! ‘‘ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے حضرت شعیب علیہ السلام سے جو کچھ کہا تھا ، کیا یہ نعرہ اس سے مختلف ہے ؟ قریب قریب یہی صورت حال مسلمانوں کے ساتھ دنیا کے مختلف علاقوں میں ہے ، اعداء اسلام اور طاغوتی طاقتیں اس وقت تک مطمئن نہیں ہو سکتیں ، جب تک مسلمان اپنے ایمان و عقیدہ اور تہذیب و ثقافت سے دستبردار نہ ہو جائیں اور ظاہر ہے کہ اصحابِ ایمان کے لئے یہ قطعاً ناقابل قبول ہے ، قرآن نے یہود ونصاریٰ کی نفسیات اور اسلام کے تئیں ان کے بغض و عداوت اور مزاج و مذاق کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:
لَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَالنَّصٰریٰ حَتّٰی تَتَّبِـعَ مِلَّتَھُمْ ۔ (البقرہ: ۱۳)
یہود و نصاریٰ آپ سے اس وقت تک راضی ہو ہی نہیں سکتے، جب تک آپ ان کے دین کے پیرو نہ ہو جائیں ۔
آج پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف اصل ناراضگی اسی کی ہے کہ یہ مغرب کی مادَر پدر آزاد ثقافت کے سامنے سر نگوں کیوں نہیں ہوتے ؟ یہ اخلاقی اقدار اور شرم و حیاء کے علمبردار کیوں بنے پھرتے ہیں ؟ مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ وہ ان مشکل حالات میں صبر و استقامت سے کام لیں ، اور مغرب و مشرق کی مشتر کہ دہشت گردی اور انسانیت سوزی سے خوف زدہ نہ ہوں کہ یہ ایک آندھی ہے جو گذرجائے گی ، اللہ تعالیٰ نے حضراتِ صحابہ کی استقامت کا کیا خوب ذِکر فرمایا ہے کہ انھیں جس قدر ڈرایا جاتا، اسی قدر اُن کے ایمان و یقین میں اضافہ ہوتا جاتا تھا :
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا (آل عمران: ۱۷۳)
صحابہ سے لوگوں نے کہاکہ (مخالفین نے) بہت سارے لوگ تمہارے مقابلہ میں جمع کر لئے ہیں ، تم ان سے ڈرو ، تو ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہی ہوگیا ۔
ایمان کی علامت یہی ہے کہ اللہ کے دین کی سر بلندی کی راہ میں جس قدر ابتلائیں اورآزمائشیں آئیں ، عداوتوں کے طوفان اُٹھیں ، مخالفتوں کی لہریں موجزن ہوں ، خوف ودہشت کا ماحول پیدا کیا جائے ، حوصلہ شکن حالات کا سامنا ہو ، اسی قدر ان کی ہمتیں بلند ہوتی جائیں ، ان کے حوصلے ٹوٹنے نہ پائیں اور مخلوق کا خوف ان پر غالب نہ ہونے پائے ، اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کے تئیں دہشت گردی کا جو پروپیگنڈہ ہو رہا ہے ، یہاں تک کہ قرآن جیسی عظیم کتاب کو بھی نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے ، اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمان ہمت ہار جائیں ، وہ مغرب کی ریشہ دوانیوں کی سامنے سر نگوں ہو جائیں اور اسلام کے بارے میں احساسِ کمتری میں مبتلا ہوکر رہ جائیں ، پس ان حالات میں مسلمانوں کو اپنا حوصلہ بلند رکھنا اورصبر و استقامت کی راہ اختیار کرنا ضروری ہے ۔
– – –