نئی دہلی: (سمیر چودھری) جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام وقف بل کے پس منظر میں اندرا گاندھی انڈورا سٹیڈیم میں منعقد کانفرنس میں جمعیت کے صدر مولانا ارشد مدنی نےوقف ترمیمی بل کی سخت الفاظ میں مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے جہنم بنا رہے ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے، ملک کو آگ لگانے کے لیے ہو رہا ہے۔ دہلی کے اندر ہماری مسجدیں 400-500 سال پرانی ہیں۔ ۔ 500 سال پرانیے دستاویزات کون پیش کرے گا؟
مولانا مدنی نے ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہزاروں شرکا کو خطاب کرتے ہوئے سرکار اور ہمندوتووادیوں کونشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ آپ مسلمانوں کی زمین ہتھیانا چاہتے ہو۔ آپ حرام کھانا چاہتے ہیں ـ اللہ کی ملکیت میں وقف دی گئی ہے۔ پرانے موقف کو دہراتے ہوئے حضرت نے کہا کہ ہم باہر سے نہیں آئے۔ ہندو گوجر ہے تو مسلمان بھی گوجر ہے۔ اگر ہندو جاٹ ہے تو مسلمان بھی جاٹ ہے۔ کشمیر میں جا کر دیکھو، وہاں مسلمان بھی برہمن ہیں، جس نے بھی جس مذہب کو پسند کیا اس پر عمل کیا۔ فرقہ پرست طاقتیں آگ لگانا چاہتی ہیں۔ ہندو الگ، مسلمان الگ، سکھ الگ لیکن ہم کہتے ہیں کہ ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی سب بھائی بھائی ہیں۔ آج بھائی چارے کو آگ لگائی جا رہی ہے۔
••مٹانے والے مٹ جائیں گے۔
صدر جمعیت نے کہا کہ اسلام اللہ کا چراغ ہے اور اللہ کا چراغ کبھی نہیں بجھے گا لیکن جس نے اسے بجھایا وہ خود بجھ گئے۔ اسلام اس ملک میں زندہ رہے گا۔ ہندوستان میں اسلام کا چراغ جلتا رہا ہے اور آئندہ بھی جلتا رہے گا۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو نظر بند کیا جاتا ہے، لیکن ان کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جیل میں ڈال دیتے ہیں۔
••بلڈوزر کے نشانے پر بھی مسلمان۔
دریں اثناء بلڈوزر کی کارروائی پر حضرت نے کہا کہ ملک میں بلڈوزر سے گرائے گئے 95 فیصد مکانات مسلمانوں کے ہیں۔ ایک آدمی سے غلطی ہو جائے تو پورا گھر گرا دو، پھر ماں باپ یا بیوی بچے کہاں جائیں گے؟ ہم اس کے خلاف ہیں۔ یہ ملک کے آئین کے خلاف ہے۔ میں اتحاد کی پالیسی کو اچھا سمجھتا ہوں۔ ایک طرف حکومت کا کردار ہے جو آپ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف انڈیا الائنس نے اپنا منشور جاری کر دیا ہے جس میں راہل گاندھی نے کہا ہے کہ اگر ہماری حکومت بنی تو ہم ہر مذہب کو آزادی دیں گے۔ میں ان کی باتوں کا احترام کرتا ہوں، اس لیے میں نے اس اتحاد کو ووٹ دینے کی اپیل کی جس میں مسلمان اپنے مذہب کی پیروی کرنے کے لیے آزاد ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ اتحاد آگے بڑھا اور بی جے پی ہار گئی۔
تویہ ملک تباہ وبرباد ہو جائے گا.
فلسطین کے مسئلہ پرمولانا مدنی نے کہا کہ جس دن فلسطین نے پہلا حملہ کیا، ہندوستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ دہشت گردی ہے۔ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا، میں نے اس وقت کہا تھا کہ جو کہتے ہیں کہ وہ دہشت گرد ہیں تو گاندھی اور نہرو ودیا ساگر تھے جنہوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دیں۔ جب میں عرب گیا تو سنا کہ ہندوستانی بارود فلسطینیوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ مجھے یہاں تک بتایا گیا کہ فلسطینیوں کو مارنے میں ہندوستانی فوجی بھی کام کرتے تھے۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا لیکن پی ایم کو اپنی پوزیشن صاف کرنی چاہیے۔ اگرفرقہ پرستوں کی پالیسیاں اپنائیں گے تو ملک تباہ و برباد ہو جائے گا۔
مولانا مدنی نے کہا، ”میں نائیڈو کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ملک کے عوام نے بی جے پی حکومت کو شکست دی، لیکن بی جے پی حکومت دو بیساکھیوں پر بیٹھی ہے، نائیڈو صاحب نے ٹی ڈی پی کے نائب صدر کو یہاں (کانفرنس میں) بھیجا ہے، جو انہیں یہاں کے حالات کے بارے میں بتائیں گے۔ اس مہینے کے آخر میں، ہم 15 دسمبر کو نائیڈو کے علاقے میں 5 لاکھ مسلمانوں کو جمع کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جمعیت علمائے ہند کی جانب سے 24 نومبر کو پٹنہ میں وقف ترمیمی بل کے خلاف ایک بڑی ریلی نکالی جائے گی۔ اس میں بہار کے سی ایم نتیش کمار بھی شرکت کریں گے۔
واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ملک میں موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آئین کے تحفظ کے موضوع پر ایک خصوصی کنونشن منعقد کیا گیا۔ جمعیۃ کے صدر مولانا ارشد مدنی کی قیادت میں اندرا گاندھی انڈور اسٹیڈیم، نئی دہلی میں اتوار (3 نومبر 2024) کو منعقدہ اس اجتماع کا مقصد ملک کے آئینی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مسلم قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا تھا تاکہ موجودہ فرقہ پرست رجحانات اور آئینی حملوں کے حوالے سے اقدامات کیے جا سکیں۔
مولانا مدنی نے اس موقع پر ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ ذہنیت پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے جن سے ملک کے آئینی اقدار کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ انہوں نے خصوصی طور پر وقف بل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کے ذریعے وقف کی املاک پر قبضہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کی دینی شناخت کو مٹانا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ وقف املاک صرف جائیداد نہیں بلکہ مسلمانوں کے دینی عقائد اور شناخت کا حصہ ہیں۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اس بل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کی شناخت کے لیے خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ بل پاس ہو گیا تو مسلمانوں کی مساجد، عیدگاہیں، اور دیگر مذہبی مقامات کے حوالے سے ثبوت فراہم کرنا ناممکن ہوگا۔ انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ یہ بل مذہبی مقامات پر براہ راست حملہ کے مترادف ہوگا اور اس سے 800 سال پرانی مساجد بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔
کنونشن میں مولانا ارشد مدنی نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اس بل کی مخالفت میں متحد ہو کر آواز اٹھائیں اور کہا کہ یہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی دینی اور قومی شناخت کی حفاظت کے لیے میدان میں آئے۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ 24 نومبر کو پٹنہ میں اس بل کے خلاف ایک بڑے احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا جائے گا جس میں مختلف مسلم تنظیمیں اور رہنما شریک ہوں گے۔