نئی دہلی: آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے قومی صدر، سابق رکن پارلیمنٹ اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر مولانا بدر الدین اجمل نے چیف جسٹس کی سربراہی والی سپریم کورٹ کی بنچ کے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے جس میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یوپی مدرسہ بورڈ کی قانونی اور آئینی حیثیت پر مُہر ثبت کر دیا ہے۔ اس فیصلہ نے جہاں مدارس سے جڑے ہزاروں افراد کو سامانِ تسلی فراہم کیا ہے وہیں دوسری طرف مدارس مخالف عناصرکے زہر آلود پروپیگنڈہ پر قد غن لگایا ہے۔یقینا یہ فیصلہ مسلمانوں کے لئے انتہائی حوصلہ افزا، انصاف کی جیت اور ملک کے جمہوری آئین کی بالا دستی کا آئینہ دار ہے۔مولانا نے مزید کہا کہ یہ تاریخی فیصلہ یوپی کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ، آسام کے وزیر اعلی ہیمنت بسوا سرما جیسے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے لئے تازیانہ عبرت ہے جن کی حکومت براہ راست مدارس کو بند کرنے کی سازش میں ملوث ہیں۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ شاید اِس فیصلہ کے بعد این سی پی سی آرکے سربراہ اور اس جیسی ذہینت والی تنظیمیں اور افراد مدارس کے خلاف اپنے منفی ایجنڈہ اور اپنی گھٹیا حرکت سے باز آجائے کیوں کہ سپریم کورٹ نے نہ صرف مدرسہ کے نظام تعلیم کو بر قرار رکھا ہے، اوراسے قانون کے مطابق گردانا ہے بلکہ ” جیو اور جینے دو” کے تبصرہ کے ذریعہ چیف جسٹس نے مدارس مخالف عناصر کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی سازش سے باز آجائیں۔ مولانا نے مزید کہا کہ جن ریاستوں میں سرکاری امداد یافتہ مدارس ہیں چند مذہبی سبجیکٹ کے ساتھ موڈرین اور سیکولر نظام کے تحت تعلیم دی جاتی ہے جسے سرکاری منظوری حاصل ہوتی ہے جسے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں واضح طور پر تسلیم کیا ہے۔ اِن سب کے باوجود مدارس کے خلاف مہم چلایا جاتا رہا ہے، ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے جاتے رہیں، ان کو بند کرنے کی سازشیں ہوتی رہی ہیں۔ مولانا نے کہا کہ در حقیقت یہ لوگ مسلم بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا چاہتے ہیں، اسی پس منظر میں آسام میں مدارس کو بند کر دیا گیا جسے وہاں کے وزیر اعلی ہیمنت بسوا سرما اپنی کامیابی شمار کرتے ہیں مگر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایسے لوگوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ یہ فیصلہ انشاء اللہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے مدارس کے خلاف ہونے والی سازش کے سد باب کا ذریعہ نیز ان کے لئے انصاف کی فراہمی کا معیار ثابت ہوگا۔