اتر پردیش کے سنبھل ضلع میں جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد میں پولیس نے 2500 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ اس معاملے میں اب تک 25 لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ جن لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے اس میں سنبھل سے سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق اور سنبھل صدر سیٹ سے سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی اقبال محمود کے بیٹے کا نام بھی شامل ہے۔ سروے کے دوران ہوئے پتھراؤ معاملے میں سنبھل ایس پی کرشن کمار نے کہا ”تقریباً 2500 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعہ تمام لوگوں کی پہچان کی جائے گی اور انہیں جیل بھیجا جائے گا۔”
سنبھل ایس پی کرشن کمار کا کہنا ہے کہ ”ہمارے سب انسپکٹر دیپک راٹھی جو کل زخمی ہو گئے تھے، انہوں نے 800 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔ ضیاء الرحمن برق اور سہیل اقبال کو ملزم بنایا گیا ہے۔ ان دونوں نے ہی بھیڑ کو اکسایا تھا۔ ضیاء الرحمن برق کو پہلے بھی نوٹس دیا گیا تھا۔ انہوں نے پہلے بھی اشتعال انگیز تقریر کی تھی اور انہیں ایسا کرنے کے لیے منع کیا گیا تھا۔ اس حادثے میں 15 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔”
سنبھل رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق کا بھی اس معاملے میں بیان سامنے آ یا ہے۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’یہ ایک پہلے سے منصوبہ بند واقعہ ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ریاست اور ملک کے اندر مسلم طبقہ کو نشانہ بنا کر کام کیا جا رہا ہے۔ اس سے بُرا حال آزادی کے بعد کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ جس طرح سے عبادت گاہوں کے قانون کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ جب پارلیمنٹ نے 1991 میں ایک قانون بنا دیا ہے کہ 1947 سے پہلے کے جتنے بھی مذہبی مقامات ہیں اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کیا جائے گا۔ اس کے باوجود بھی کئی جگہوں پر عرضیاں دی جا رہی ہیں اور اسی دن احکامات بھی جاری کیے جا رہے ہیں۔‘‘
ضیاء الرحمن برق نے آگے کہا ’’ہم نے اس معاملے میں پُر امن سروے کرایا، مگر جمعہ کے دن بہت سارے لوگوں کو نماز پڑھنے سے روکا گیا۔ اتنا ہی نہیں، پولیس فورس کی بھی تعیناتی کی گئی۔ اس کے با وجود ہم نے لوگوں سے کہا کہ کوئی قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے، دوسرے مسجد میں جا کر نماز پڑھ لیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک بار سروے ہو گیا تھا تو دوبارہ سروے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اگر انہیں سروے ہی کرانا تھا تو عدالت کا فرمان لے کر آتے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے سروے کیا اور جو لوگ وہاں پر تھے، انہوں نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے۔‘‘