معصوم مرادآبادی
سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے سروے کا حکم دے کر نچلی عدالت نے جو انتشار پھیلایا تھا، اس پر سپریم کورٹ نے عبوری روک لگادی ہے اور اس معاملے کو ہائی کورٹ میں سماعت کے لیے بھیج دیا ہے۔خاص بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نچلی عدالت کو تنبیہ کی ہے کہ”امن اور ہم آہنگی کو ہرحال میں برقرار رکھا جانا چاہئے۔“سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد سنبھل کے عوام نے چین کا سانس ضرور لیا ہے، لیکن وہاں ابھی تک پولیس کے ظلم وستم کا سلسلہ تھما نہیں ہے اور بے گناہوں کی گرفتاریوں کے لیے مسلسل دبش دی جارہی ہے۔حالانکہ سنبھل کاسانحہ مقامی انتظامیہ اور پولیس کی جانبداری اور فرض ناشناسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سنبھل کے بعد اجمیر کی ایک عدالت نے وہاں کی شہرہ آفاق درگاہ خواجہ معین الدین چشتی کے ’شیومندر‘ہونے کا دعویٰ کرنے والی ایک عرضی کو سماعت کے لیے قبول کرکے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا ہے۔ اب یہ سنگین سوال کھڑا ہوگیاہے کہ کیا اب ملک میں چپے چپے پر کھدائی ہوگی اور یہ پتہ لگایا جائے گا کہ کس کے قدموں کے نیچے کیا ہے۔
ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد وہاں عالیشان مندر کی تعمیر نے فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کو جو حوصلہ بخشا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ اب ہر تاریخی مسجد کے نیچے ایک مندر تلاش کرنے کی مہم چل رہی ہے اور اس معاملے میں نچلی عدالتیں انصاف اور قانون کا پاس ولحاظ کرنے کی بجائے ظلم وناانصافی کرنے والوں کی ہم نوا نظر آرہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں کئی تاریخی مسجدوں کے خلاف عرضیاں عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔ان میں بنارس کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ،لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد،مدھیہ پردیش کی بھوج شالہ مسجد کے بعد اب نیا نام سنبھل کی شاہی جامع مسجد اور خواجہ اجمیری کی درگاہ شامل کا شامل ہوا ہے۔
سنبھل کی پانچ سوسالہ قدیم جامع مسجد کو متنازعہ بنانے کے لیے گزشتہ ہفتہ جو کھیل کھیلا گیا، وہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک تھا۔ ایک طرف ہم ملک میں آئین کی 75 ویں سالگرہ منارہے تھے اور دوسری طرف سنبھل میں آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں۔ ملک کا وہ سیکولر جمہوری آئین جو ہر شہری کو یکساں انصاف اور مساوات فراہم کرنے کی گارنٹی دیتاہے، جب اس کے نفاذ کی قسمیں کھانے والے ہی آئین کی روح کا خون کرنے لگیں تو پھر اس ملک میں کچھ بھی محفوظ نہیں رہے گا ۔ سنبھل کی جامع مسجد کو متنازعہ بنانے کے لیے بھی وہی سب کچھ کیا گیا جو اس سے پہلے بنارس کی گیان واپی مسجد میں کیا گیا تھا۔ جس طرح بنارس میں ذیلی عدالت نے آناً فاناً گیان واپی مسجد کے سروے کے نام پر اس کے حوض میں نام نہاد’شیولنگ‘ تلاش کرکے پوری مسجد ہی کومتنازعہ بنادیا تھا، ٹھیک وہی سازش سنبھل کی جامع مسجد میں بھی رچی جارہی تھی۔ یہاں بھی سروے کے دوران حوض خالی کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ انتظامیہ کی بدنیتی بھانپ کر جب مسلمانوں نے مزاحمت کی توانھیں اس کا جواب گولیوں سے دیا گیا اور پانچ بے گناہ مسلم نوجوان شہید ہوئے۔ یہ دراصل اپنی عبادت گاہ کے تقدس کے لیے دی جانے والی ایسی قربانی ہے، جس کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔
بلاشبہ اگر سنبھل کے مسلمان مزاحمت نہ کرتے تو اب تک ان کی جامع مسجد کے حوض میں بھی ایک عدد شیولنگ تلاش کرکے عدالت اسے سیل کردیتی۔پھر وہاں کے مسلمان برسوں عدالتوں کے چکر لگاتے رہتے اور وہاں سے انھیں ایسا ہی انصاف ملتا جو ملک کی سب سے بڑا عدالت کے جج نے رام چندرجی کی مورتی سامنے رکھ کر ایودھیا معاملے میں کیا تھا۔سچ پوچھئے تو اس وقت ملک کے اندر مسجدوں اور درگاہوں کے نیچے مندر تلاش کرنے کی جو مہم چل رہی ہے، اس کے لیے پوری طرح سابق چیف جسٹس چندرچوڑ ہی ذمہ دار ہیں جنھوں نے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ مجریہ1991کی گمراہ کن تشریح کی تھی۔ انھوں نے مئی 2022میں کہا تھا کہ ”کسی مذہبی مقام کا کردار تو تبدیل نہیں کی جاسکتی، لیکن اس کی اصلیت کی جانچ کرنے سے قانون ہمیں نہیں روکتا۔“
دراصل یہی وہ زبانی تبصرہ تھا جس نے مسجدوں کے خلاف تنازعات کا پٹارہ کھول دیا ہے اور اب اسی کی آڑلے کر تمام تاریخی مسجدوں کے سروے کے لیے ذیلی عدالتوں میں عرضیاں داخل کی جارہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ عدالتیں کچھ سوچے سمجھے بغیر سروے کے احکامات جاری کررہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب1991میں یہ قانون پاس ہوچکا ہے کہ آزادی کے وقت یعنی 1947میں جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، اس کی وہی حالت برقرار رکھی جائے گی تو پھر ذیلی عدالتیں عرضی گزاروں کی نیت کو کیوں نہیں بھانپ رہی ہیں۔حال ہی میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل راجیو رام چندرن نے نئی دہلی میں منعقدہ ساملہ کے ایک پروگرام کے دوران کہا ہے کہ”اس وقت ملک میں قدیم مسجدوں اور مذہبی مقامات میں مندر تلاش کرنے کی فرقہ پرست عناصرنے جومہم شروع کررکھی ہے، اس کے لیے سپریم کورٹ ذمہ دار ہے جس نے گزشتہ سال بنارس کی تاریخی گیان واپی مسجد میں سروے کی اجازت دے کر اس شرانگیز مہم کا دروازہ کھولاہے۔“ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جسٹس چندرچوڑ کے جس بیان کو نظیر بنایا جارہا ہے وہ کوئی عدالتی فیصلہ نہیں بلکہ محض زبانی تبصرہ تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں عبادت گاہ تحفظ ایکٹ سے متعلق کئی عرضیاں التوامیں ہیں۔2022میں جسٹس یو یوللت کی بنچ نے اس معاملے میں مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا تھا، جواسے ابھی تک نہیں ملا ہے۔حکومت کی پراسرار خاموشی اور نچلی عدالتوں کی ضرورت سے بڑھی ہوئی سرگرمی سے ملک کے اندر فرقہ وارانہ کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔بہتر ہوگا کہ سپریم کورٹ عبوری حکم جاری کرنے کی بجائے نچلی عدالتوں کو ایسے معاملوں سے نمٹنے کے لیے واضح ہدایات جاری کرے، ورنہ یونہی ملک میں انتشار پھیلتا رہے گا۔
اس معاملے میں ذیلی عدالتیں کتنی عجلت میں ہیں اس کا اندازہ سنبھل کی جامع مسجد کے واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جہاں فریق مخالف کو سنے بغیر عدالت نے شاہی جامع مسجد کے سروے کا یک طرفہ حکم دے دیا۔ 19 نومبر کو سول جج (سینئر ڈویژن)آدتیہ سنگھ کی عدالت میں صبح گیارہ بجے ایک مقدمہ دائر ہوتا ہے۔ دوپہر ایک بجے سماعت ہوتی ہے اور شام چاربجے کورٹ کمشنر کا تقرر بھی ہوجاتا ہے۔شام چھ بجے کورٹ کمشنر کی سربراہی میں سروے ٹیم جامع مسجد پہنچ جاتی ہے۔ شام ساڑھے سات بجے سروے کاکام کا مکمل ہوجاتا ہے۔ مسجد کے نمازی اور انتظامیہ کمیٹی عدالت کے حکم کا احترام کرتے ہوئے کوئی مزاحمت نہیں کرتے۔اتوار 24/نومبر کی صبح سات بجے جبکہ نمازی فجر اور اشراق سے فارغ ہورہے تھے تو سروے ٹیم دوبارہ وہاں پہنچ جاتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ وہ اکیلے نہیں پہنچتی بلکہ اس کے ساتھ شرپسندوں کا ایک ہجوم ہے جو’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگارہا ہے۔
سروے ٹیم کی پیش قدمی کی ویڈیو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سروے کرنے نہیں بلکہ مسجد کو فتح کرکے وہاں ہری ہر مندر بنانے کے لیے آئے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جوپولیس احتجاجی مسلمانوں پر گولیاں چلاتی ہے، وہ سروے ٹیم کے ساتھ چل رہے شرپسندوں کو پورا تحفظ فراہم کرتی ہے۔اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ پولیس کی نیت وہاں امن قایم کرنے کی نہیں بلکہ شرپسندوں کے عزائم پورے کرنے کی تھی۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ جن نوجوانوں کی موت ہوئی ہے، ان کے جسم میں دیسی کٹوں سے چلائی گئی گولیاں ملی ہیں۔جبکہ ایسی کئی ویڈیو ز موجو د ہیں، جن میں پولیس فائرنگ کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔جن پانچ مسلم نوجوانوں کی موت واقع ہوئی ہے، ان میں سے تین کے سینوں میں گولیاں لگی ہیں اور یہ کام پولیس کے علاوہ کسی اور کا نہیں ہے۔سنبھل کی جامع مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے صدر ظفرعلی ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ انھوں نے خود اپنی آنکھوں سے پولیس کو گولیاں چلاتے ہوئے دیکھا۔ ظفرعلی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ”اتوار کی صبح جوسروے ٹیم مسجد پہنچی تھی اس نے حوض خالی کرانے کے لیے کہا تھا، جس کی وجہ سے حالات کشیدہ ہوئے۔ جب لوگوں کو پتہ چلاکہ حوض خالی کرایا جارہا ہے تو انھیں ایسا محسوس ہوا کہ سروے کے ساتھ مسجد کی کھدائی ہورہی ہے۔اسی وجہ سے ماحول خراب ہوا۔“
سنبھل کے واقعہ میں پولیس اور انتظامیہ کا کردار انتہائی مشکوک ہے اور اس کی اصلیت اسی وقت بے نقاب ہوگی جب اس معاملے کی غیر جانبدارانہ عدالتی تحقیقات ہوگی، لیکن یوگی سرکار میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے، کیونکہ جن لوگوں نے سنبھل کی جامع مسجد کے خلاف عدالت میں عرضی داخل کی تھی، ان میں یوپی سرکار کا ایک اسٹینڈنگ کونسل بھی شامل تھا، جو حکومت سے ماہانہ18 ہزار روپے کی تنخواہ لیتا ہے۔یہی وہ سچائی ہے جو سنبھل فساد میں سرکاری مشنری کی شمولیت کا پردہ چاک کرتی ہے۔ یوگی سرکار نے اس واقعہ کی عدالتی جانچ کے لیے ہائی کورٹ کے سابق جج دیویندر کمار اروڑہ کی قیادت میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، جسے دوماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔البتہ مرکزی حکومت اس معاملہ میں قطعی خاموش ہے اور وہ پارلیمنٹ میں سنبھل معاملہ پر بحث سے دامن بچارہی۔فی الحال مودی سرکار کو اپنے ملک کی اقلیتوں سے زیادہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی اقلیت کی فکر ستارہی ہے۔اقلیت کسی بھی ملک کی ہو، وہ یکساں انصاف کی مستحق ہوتی ہے۔ اپنی اقلیت کے کرب کو نظرانداز کرکے پڑوسی ملک کی اقلیت کے حالات پر احتجاج کرنا کون سی ڈپلومیسی ہے، ہمیں نہیں معلوم۔