اس فتنے کا سر کچلنا بے حد ضروری ہے!

سہیل انجم

اس وقت ملک میں ایک نئے فتنے نے سر اٹھا لیا ہے۔ حالانکہ یہ فتنہ نیا نہیں لیکن آجکل اس کی زد میں ملک کا امن و امان آگیا ہے۔ یہ فتنہ ہے تاریخی مسجدوں، مقبروں، عبادت گاہوں اور درگاہوں پر مندر ہونے کا دعویٰ کرنا۔ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی جانب سے دسیوں بیسیوں سال سے سیکڑوں بلکہ ہزاروں مسجدوں کی ایک فہرست پیش کی جاتی رہی اور یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ ان مسجدوں کی تعمیر مندر توڑ کر ہوئی ہے۔ لیکن اس دعوے کی زد میں صرف بابری مسجد آئی۔ اسے سپریم کورٹ کے ایک ناپسندیدہ فیصلے کی روشنی میں مندر میں تبدیل کر دیا گیا۔ جب بابری مسجد کا انہدام ہوا تھا تو ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ اب کسی دوسری مسجد پر کوئی تنازع نہیں ہوگا۔ لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا اور اب مسلم تعمیرات بالخصوص مسجدوں پر مندر ہونے کے دعووں کی باڑھ سی آگئی ہے۔

متعدد تاریخی مسجدوں کے سلسلے میں عدالتوں میں کیس دائر کر دیے گئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کم از کم دس تاریخی مسجدوں کے سلسلے میں مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حذیفہ احمدی کے مطابق ایسے معاملات میں نچلی عدالتیں یہ طریقہ کار اختیار کرتی ہیں کہ وہ پہلے دن ہی مسجدوں کے سروے کا حکم دے دیتی ہیں۔ ان کی یہ بات بڑی حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔ سنبھل میں یہی ہوا۔ 19 نومبر کو شاہی جامع مسجد پر مندر ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔ عدالت نے اسی روز سماعت کی اور اسی روز مسجد کے سروے کا حکم دے دیا۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اسی روز سروے بھی کر لیا گیا۔ لیکن 24 نومبر کو پھر عجلت میں سروے کیا گیا جس کی وجہ سے تشدد پھوٹ پڑا اور پانچ افراد کی جانیں ضائع ہو گئیں۔

ابھی سنبھل میں حالات معمول کے مطابق آئے بھی نہیں تھے کہ اجمیر میں واقع خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر دعویٰ پیش کر دیا گیا۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ مقامی عدالت نے اس اپیل کو سماعت کے لیے قبول بھی کر لیا۔ اس معاملے پر اب بیس دسمبر کو سماعت ہوگی۔ ادھر شاہی عیدگاہ متھرا کے سروے کی درخواست عدالت نے قبول کر لی ہے۔ اب ایسی خبریں ہیں کہ اجمیر میں واقع ڈھائی دن کا جھونپڑا پر بھی مندر ہونے کا دعویٰ کر کے اس میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایسے معاملات میں نچلی عدالتوں کی جانب سے جس طرح درخواستیں قبول کی جا رہی ہیں اور سروے کا حکم دیا جا رہا ہے اس کے پیش نظر یہ اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید مسجدوں پر دعوے کیے جائیں گے۔

ایسے معاملات میں نچلی عدالتوں کے رویے پر فکرمندی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لیکن بہت سے تجزیہ کار اور قانون داں اس کے لیے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل دشینت دوے نے سینئر صحافی کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے سال 2022 میں گیان واپی مسجد کے سروے کی جو اجازت دی تھی اس سے ملک اور آئین کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ حالانکہ جب گیان واپی مسجد کی کمیٹی نے اپنی درخواست میں یہ دلیل دی تھی کہ 1991 کے عبادت گاہ قانون میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی اسی میں رہے گی اس کی شکل و صورت کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس پر چندر چوڑ نے کہا تھا کہ سروے کرنے سے مسجد کی ہیئت تبدیل نہیں ہوگی بلکہ یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ وہاں پہلے کیا تھا۔ اب جبکہ اس کے وضو خانے کو سیل کر دیا گیا اور اس کے تہہ خانے میں روزانہ پوجا ہو رہی ہے، قانون دانوں کا کہنا ہے کہ مسجد کی ہیئت بدل گئی ہے۔

بہرحال ہمیں قانونی معاملات کی جانکاری نہیں ہے اس لیے ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کہنا چاہیں گے۔ لیکن اتنا ضرور کہنا چاہیں گے کہ مسجدوں پر مندر ہونے کا دعویٰ آر ایس ایس اور بی جے پی کی حکمت عملی کاایک حصہ ہے۔ جتنی زیادہ مسجدوں پر دعوے ہوں گے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج اتنی ہی گہری ہوگی اور دونوں فرقوں میں نفرت اتنی ہی زیادہ بڑھے گی۔ اس کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ اس کا ووٹ بینک باقی رہے گا اور وہ اقتدار کے مزے لوٹتی رہے گی۔ حالانکہ بی جے پی کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں پر مسلم ووٹ بینک اور مسلمانوں کو خوش کرنے کی سیاست کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ وہ خود ہندو ووٹ بینک اور ہندووں کو خوش کرنے کی سیاست کرتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ان شرانگیزیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی۔ لیکن کارروائی تو دور کی بات ہے ایسی حرکتوں کے خلاف کوئی بیان تک نہیں دیا جاتا۔

آر ایس ایس کی جانب سے اس ملک کے ہندووں کو یہ گمراہ کن پاٹھ پڑھایا جاتا رہا ہے کہ ہندوستان میں جو بھی تاریخی مسجدیں، عبادت گاہیں، درگاہیں، مزار اور قبرستان ہیں وہ سب ہندو مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ لہٰذا اب جبکہ ہماری حکومت آگئی ہے تو ہمیں ان مقامات کی بازیابی کرنی ہے ان کو واپس لینا ہے۔ دراصل سنگھ پریوار اس ملک سے ہر اس عمارت کو مٹا دینا چاہتا ہے جس سے مسلم یا اسلامی شناخت ظاہر ہوتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی گیان واپی مسجد کے خلاف کیس کیا جاتا ہے تو کبھی شاہی عید گاہ متھرا کے خلاف۔ کبھی سنبھل کی جامع مسجد کے خلاف تو کبھی اجمیر کی درگاہ کے خلاف۔ کبھی بدایوں کی جامع مسجد کے خلاف تو کبھی دہلی کی جامع مسجد کے خلاف۔ کبھی تاج محل کے خلاف تو کبھی قطب مینا رکے خلاف۔ اس کے لیے بہت آسان نسخہ اختیار کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں عمارت مندر توڑ کر بنی تھی۔ اس کی دیواروں پر مندروں کے نقوش ہیں۔ اس کے ستون مندر ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ اس کا طرز تعمیر ہندو طرز تعمیر سے مشابہ ہے۔ لہٰذا اس عمارت کا سروے کیا جائے اور اس کی کھدائی کرکے اس کے نیچے کیا ہے یہ پتہ لگایا جائے۔

اس فتنے کے خلاف ملک کے سنجیدہ، امن پسند اور انسانیت دوست طبقات آواز بلند کر رہے ہیں۔ لیکن حکومت کے ایوانوں میں ان آوازوں کو سننے والا کوئی نہیں ہے۔ ان شرپسندوں کی ناک میں نکیل ڈالنے والا کوئی نہیں ہے۔ حکومت و عدالت اور انتظامیہ کی شہہ پر ایسے اقدامات میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے بھی حکمراں طبقے کے نظریات کو قبول کر لیا ہے۔ اسی لیے وہ ان شرانگیزیوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے ان کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔ اس سر اٹھانے والے فتنے نے پورے ملک کے امن و امان کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فتنے کاسر کچلا جائے۔ ورنہ اگر ابھی کارروائی نہیں کی گئی تو پانی سر سے اونچا ہو جائے گا اور پھر پورے ملک میں جو افرا تفری مچے گی اس پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com