لکھنؤ: اتر پردیش میں سبھل کے بعد اب بدایوں میں بھی شمسی جامع مسجد کے حوالے سے ایک نیا تنازعہ سامنے آیا ہے۔ ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ اس جگہ پر پہلے نیل کنٹھ مہادیو مندر تھا، جسے توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی۔ اس معاملے کی سماعت کے لیے بدایوں کی ضلعی عدالت نے اسپیشل فاسٹ ٹریک کورٹ قائم کیا ہے، جہاں آج سماعت ہوگی۔
ہندو فریق کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ اس جگہ پر موجود مسجد کا قیام ہندو عبادت گاہ کو گرا کر ہوا تھا۔ دوسری جانب، مسلم فریق نے اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بادشاہ شمس الدین التمش نے یہ مسجد تعمیر کروائی تھی اور اس جگہ کبھی بھی مندر یا مورتی کا وجود نہیں تھا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی نے اس تنازع پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آنے والی نسلوں کو ‘اے آئی’ کی تعلیم کے بجائے ‘اے ایس آئی’ کی کھدائی میں الجھا دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے حکومت اور عدالت کو یاد دلایا کہ 1991 کا عبادت گاہ ایکٹ اس طرح کے تنازعات پر واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
یہ معاملہ سنبھل کے تنازع سے مشابہت رکھتا ہے، جہاں ہندو فریق نے جامع مسجد کو مندر کے ملبے پر تعمیر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ مسجد کے سروے کے دوران ہنگامہ آرائی اور پولیس پر پتھراؤ ہوا، جس کے نتیجے میں 5 افراد کی جانیں گئیں۔