شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
انسان کو اپنی زندگی میں جلوت اور خلوت دونوں کی ضرورت پڑتی ہے، جلوت سے مراد ہے لوگوں کے درمیان رہ کر اپنے کام کو انجام دینا، کاروبار زندگی اس پر موقوف ہے، تعلیم وتعلم، تجارت، خریدوفروخت، سفر، پندو موعظت ان سب میں انسان کو جلوت کی ضرورت پیش آتی ہے، وہ تنہا یا اپنے ایک دو ساتھی کے ساتھ خلوت کدہ میں بیٹھ کر ان ضرورتوں کو پوری نہیں کر سکتا، اسی طرح اس کو خلوت وتنہائی بھی مطلوب ہوتی ہے، اگر رات کی تنہائی میسر نہ ہو تو انسان پُر سکون زندگی سے محروم ہو جاتا ہے، اگر بال بچوں کے ساتھ خلوت میسر نہ آئے تو اس کی گھریلو زندگی اور پلیٹ فارم پر گزارے جانے والے اوقات میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا، جلوت وخلوت دونوں کیفیتیں ضرورت کے لحاظ سے تعلیم وتعلم، علم وتحقیق اور تربیت واصلاح کے لئے بھی مطلوب ہوتی ہیں، علمی دنیا کے بڑے بڑے کارنامے جلسوں اور جلوسوں کے شور میں نہیں؛ بلکہ تنہائیوں میں انجام دئیے گئے، علامہ محمد بن احمد سرخسی ؒ(متوفی: ۴۸۳ھ) فقہ حنفی کے بلند پایہ مصنف اور عالم ہیں، ان کے مقام کے اعتبار سے ان کو شمس الائمہ کا لقب دیا گیا، ان کی ایک مایہ ناز کتاب ’’ المبسوط‘‘ ہے، جو کئی ہزار صفحات پر مشتمل ہیں، اور دس ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی ہے، حکومت وقت نے ان کو اوز جند (تاجکستان) کا ایک شہر کے قید خانے میں گہرے کنویں میں قید کر دیا تھا؛ مگر یہ تکلیف دہ قید وحبس ان کو ان کے علمی کاموں سے روک نہیں پایا، وہ کنویں کے اندر ہی سے املاء کراتے، کوئی کتاب موجود نہیں تھی؛ اس لئے حافظہ سے ہی زبانی لکھاتے، اور ان کے تلامذہ اس کو لکھتے جاتے تھے، یہ آج فقہ حنفی کے مسائل کا سب سے مفصل مجموعہ ہے، اور زبان اتنی سلیس ہے کہ فقہ کا بلند پایہ کارنامہ ہونے کے ساتھ ساتھ زبان وادب کا بھی شاہکار ہے، علامہ سرخسیؒ ہی کی ایک اور کتاب بین ملکی تعلقات پر ہے، جو امام محمدؒ کی سیر کبیر کی شرح ہے، یہ کتاب بھی اپنے موضوع پر بے نظیر سمجھی گئی ہے، اس کو بھی انھوں نے اس گہرے قید خانے سے املاء کرایا، اور آج دنیائے علم اس کو اپنے سینے سے لگاتی ہے۔
مشہور محدث، فقیہ اور متکلم شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ (متوفی: ۷۲۸ھ) نے اپنی متعدد اہم کتابیں قید کی حالت میں تصنیف کیں، اور آج پوری دنیائے اسلام ان کتابوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، ان ہی میں ایک غیر مسلموں سے تشبہ کے موضوع پر ’’ اقتضاء الصراط المستقیم ‘‘بھی ہے، جس کا اردو کے بہ شمول کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے، اہل سنت کے چاروں فقہ کے علاوہ ایک فقہ زیدیہ کی بھی ہے، جس کو اہل بیت کی فقہ کہا جاتا ہے، زیدیہ حضرات کا مرکز یمن تھا؛ اس لئے یہاں فقہ زیدی کے بڑے بڑے علماء پیدا ہوئے، ان ہی میں احمد بن یحیٰ بن مرتضیٰ حسنی (متوفی: ۸۴۰ھ) ہیں، انھوں نے قید میں رہتے ہوئے متعدد کتابیں لکھی ہیں، ان میں ایک ائمہ اہل بیت کی فقہ پر ’’ الازھار فی فقہ الائمۃ الاطھار‘‘ ہے، زمانہ قریب کے اہل علم میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ جب انگریزوں کے ہاتھ مالٹا میں قید کئے گئے ، ان کے لئے مالٹا کا قید خانہ علم وتحقیق کا مرکز بن گیا، وہیں انھوں نے قرآن مجید کا وہ ترجمہ مکمل کیا، جو اردو کا سب سے مقبول ترجمہ ہے، اور چند پاروں پر آپ کے توضیحی حواشی بھی ہیں، یہ پورا کام مالٹا کے قید خانہ میں انجام پایا، اور اس قید وبند میں بر صغیر کے مسلمانوں کو ایک ایسی متاع گراں مایہ فراہم کر دی، جو مدتوں سے قرآن تک رسائی کا ذریعہ ہے، بخاری شریف کے تراجم ابواب پر آپ کی معروف تصنیف’’ الابواب والتراجم‘‘ کے ابتدائی ابواب اسی قید خانہ میں مرتب ہوئے، علماء عرب میں مشہور سید قطب شہیدؒ (متوفی: ۱۹۸۶ء) کی معروف ومقبول تفسیر’’ فی ظلال القرآن ‘‘کا بیشتر حصہ جیل ہی میں لکھا گیا ہے، مولانا ابوالکلام آزادؒ (متوفی: ۱۹۵۸ء) کی تفسیر’’ ترجمان القرآن‘‘ کا بھی بڑا حصہ جیل کی زندگی کا عطیہ ہے، معروف مفکر ومصنف مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (متوفی: ۱۹۷۹ء) کی مقبول عام تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کے ایک بڑے حصہ کا کام جیل میں انجام پایا۔
غرض کہ جیسے جلوت کے بہت سے فیوض ہیں اور قدم قدم پر انسان کو اس کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح اگر صحیح استعمال ہو تو خلوتیں بھی انسان کے لئے بڑی نعمت ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی بنائے جانے سے پہلے خلوت نشینی عطا کی گئی، آپ کے اندر تنہائی پسندی پیدا ہو، آپ غار حراء میں تشریف لے جاتے اور کئی کئی دن اس میں مقیم رہتے (صحیح بخاری، حدیث نمبر:۳) اس طرح گویا اُمت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُسوہ فراہم کیا گیا کہ بعض دفعہ کسی اہم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے یکسوئی اور کامل توجہ کے لئے خلوت کدوں کا بھی اہتمام کرنا چاہئے، شاید اسی سے حضرات صوفیاء کے یہاں آبادی سے کنارہ کش ہو کر اور لوگوں کے میل جول سے آزاد ہو کر چلہ کشی کا معمول قائم ہوا۔
یہ خلوت عبادت وریاضت کے لئے بھی ہو سکتی ہے کہ آدمی کچھ لمحات تنہائی میں گزارے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر غور کرے، اپنی زندگی کا جائزہ لے، اپنا احتساب کرے اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کرے، اور یہ خلوت نشینی تربیت واصلاح کے لئے بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ کے کچھ بندوں کو لے کر بیٹھ جائے اور تنہائی میں ان کی تربیت پر توجہ دیں، جیسا کہ صوفیاء کا معمول تھا، اور یہ خلوت علمی اور تحقیقی کاموں کے لئے بھی ہو سکتی ہے کہ جو لوگ علمی شغف رکھتے ہوں اور ان کو کہیں علمی کام انجام دینا ہو وہ شوروہنگامہ کے ماحول سے ہٹ کر کسی تنہائی کی جگہ میں فروکش ہو جائیں اور اپنا کام انجام دیں۔
میرے شیخ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اس کو ’’ تصنیفی اعتکاف ‘‘ کہتے تھے، وہ ہفتہ دو ہفتہ یا مہینہ دو مہینہ کے لئے کسی تنہائی یا سکون کی جگہ پر منتقل ہو جاتے، اپنے املاء نویس کو ساتھ رکھتے ، حسب سہولت کتابیں بھی ساتھ رکھی جاتیں، اور متعین موضوع پر پورا وقت لگا کر کام کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی، ان کے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائپوریؒ پنجاب سے تعلق رکھتے تھے، وہ بڑے مصلح ہونے کے ساتھ ساتھ داعیانہ جذبہ سے بھی سرشار تھے، اور امت کی فکر اُن کو گھلاتی رہتی تھی، جب قادیانیت کا فتنہ اٹھا تو اُن کے کچھ دور کے رشتہ دار اور اہل تعلق بھی اس سے متأثر ہوگئے تھے، مولانا رائے پوریؒ کو احساس تھا کہ یوں تو قادیانیت کے رد میں بہت سی کتابیں لکھی جا رہی ہیں، اور وہ علمی اعتبار سے بلند پایہ بھی ہیں؛ لیکن ایک ایسی کتاب کی ضرورت ہے جو خالص داعیانہ اور ناصحانہ انداز میں لکھی جائے ، جو خود قادیانیوں کے ہاتھ میں دی جا سکے، اس مقصد کے لئے ان کی نظر انتخاب اپنے محبوب ومقبول اور باتوفیق مرید حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ پر پڑی، اور ان سے اس خواہش کا اظہار کیا، اس کے لئے شہر کی رونقوں سے دور رائے پور کے قصبہ میں ایک کمرے میں قادیانیت کا پورا دستیاب لٹریچر جمع کرایا اور حضرت مولانا علی میاںؒ گویا اس میں معتکف ہوگئے، دن بھر کتابوں کا مطالعہ کرتے، ان کے اقتباسات جمع کرتے اور انہیں ترتیب دیتے، اور رات کو حضرت رائے پوریؒ کی مجلس میں اس کی خواندگی ہوتی، جس میں حضرت رائپوریؒ کے علاوہ ان کے دوسرے مصاحبین اور مریدین بھی ہوتے، میں نے سنا کہ کبھی کبھی امیر شریعت حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ بھی تشریف لے آتے، وہ پنجاب کے رہنے والے تھے، جہاں سے یہ فتنہ اٹھا تھا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ختم نبوت کے تحفظ کا بڑا جذبہ اور عوام کو سمجھانے کا ملکہ عطا فرمایا تھا، اُن کے اس جذبہ کی وجہ سے علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے ان کو امیر شریعت کا لقب دیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت فرمائی، مولانا علی میاں صاحبؒ نے اس کتاب کو بہت ہی مثبت اور دعوتی لب و لہجہ میں لکھا ہے؛ اس لئے نام لیتے ہوئے ظاہری اور واجبی احترام کو بھی قائم رکھا گیا، مثلاََ: فلاں صاحب لکھتے ہیں، یا فلاں صاحب رقمطراز ہیں، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ جب یہ عبارت سنتے تو حمیت ایمانی کے تحت بے تاب ہو جاتے اور حضرت رائے پوریؒ سے کہتے کہ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ہے، اس شخص کے لئے ایسے الفاظ! حضرت رائے پوریؒ ان کو ٹھنڈا کرتے کہ یہ کتاب آپ جیسوں کے لئے نہیں لکھی جا رہی ہے، ان لوگوں کے لئے لکھی جا رہی ہے، جن کو یہی لب ولہجہ برداشت ہو سکے گا، یہ اہم کتاب ’’ قادیانیت، تحلیل وتجزیہ ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے، اور میرا خیال ہے کہ کوئی شخص جو قادیانیت میں مبتلا ہو، اس کو دعوتِ ایمان دینے کے لئے اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں ہے، حضرت مولانا اس کو اپنا’’ تصنیفی اعتکاف ‘‘قرار دیتے تھے۔
اس حقیر کو گزشتہ دو چند سالوں سے اپنے بعض بزرگوں کے اس طریقہ کو اختیار کرنے اور فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے، ۲۰۲۰ء میں جب مجھے کورونا کے پھیلاؤ کی وجہ سے دہلی میں کورنٹائن ہونا پڑا تو اسی جبری تنہائی میں آسان علم کلام (۲۲۴؍صفحات) کے کام کا موقع ملا اور بعض سفر نامے بھی لکھے، پھر جب ملک بھر میں لاک ڈاؤن لگا، اور یہ گنہگار کورونا کا مریض ہوا اور پھر اللہ کے فضل سے صحت یاب ہوا تو عرصہ تک پورا ملک بند تھا، اسی دور میں پیغمبر عالم (۴۷۶؍صفحات ) اور اسلام پر بے جا اعتراضات (۸۰۲؍ صفحات) کی تالیف وترتیب کی سعادت حاصل ہوئی، جس کو اللہ تعالیٰ نے بڑی پزیرائی عطا فرمائی، اب اس وقت یہ کتابیں دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہو رہی ہیں۔
دل میں داعیہ تھا کہ حدیث پر کچھ کام کیا جائے کہ آخرت میں حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کے لئے اپنی خالی تھیلی میں کچھ تو ہو، تو کافی غور و خوض کے بعد حدیث پر ’’ مطالعۂ حدیث ، عصر حاضر کے پس منظر میں ‘‘ ایک کام شروع کیا گیا، جس کے تقریباََ ساتھ آٹھ سو صفحات ہو چکے ہیں اور شاید مزید کچھ صفحات کا اضافہ ہوگا، اس کے لئے ہم نے یہی راہ اختیار کی، اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کی دعوت پر ملاوی (افریقہ) گیا، تقریباََ دو عشرہ قیام کیا اور اس میں یہی خدمت انجام دی، اس کے علاوہ ایک اور تقاضا عرصہ سے میرے اوپر تھا اور وہ یہ کہ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے اسلام کے نظام قضاء پر ’’ اسلامی عدالت ‘‘ کے نام سے ایک اہم کتاب لکھی ہے، جو قاضی کی صفات اور قضاء کے آداب پر ہے، ان کی خواہش بلکہ میرے لئے اہمیت تھی کہ قضاء سے متعلق دوسرے احکام پر اس کتاب کی ایک اور جلد آجائے؛ چنانچہ ۷؍ اگست ۲۰۲۴ء کو جائے سکون کی تلاش میں کشمیر کا سفر کیا، وہاں دوستوں نے گلمرگ کے قریب ایک جگہ منتخب کی، یہیں اپنے ایک عزیز شاگرد مولوی محمد ادریس قاسمی سلمہ کے ساتھ قیام ہوا اور اس حقیر نے ’’ اسلامی عدالت‘‘ کی دوسری جلد املاء کرائی، جس میں اب تھوڑا سا کام باقی رہ گیا ہے۔
میں جمعہ کے کالم میں وقتاََ فوقتاََ سفر نامے لکھتا رہتا ہوں؛ تاکہ قارئین دنیا کے حالات سے واقف ہوں اور جو سبق آموز پہلو ہیں، ان سے فائدہ اُٹھائیں، یہ بھی ایک سفرنامہ ہے، خلوت وتنہائی کا سفر نامہ جس کو علمی وفکری ضرورتوں کے لئے کیا گیا، اس سفر نامے کا مقصد نہ تفریح تھا نہ قدرت کی صناعی اور انسان کی کاریگری کا دیدار، جس کے ذکر سے قارئین کو شاد کام کیا جائے؛ لیکن اس میں ایک بڑا سبق ہے کہ انسان طبعی طور پر عزیزوں، دوستوں، رشتہ داروں اور ہمسایوں کے درمیان وقت گزارتا ہے اور یہ انسان کے لئے لطف ولذت کا باعث ہوتا ہے؛ لیکن انسان کو کچھ وقت تنہائی کا بھی منتخب کرنا چاہئے، جس کا مقصد روحانی سکون، علمی استفادہ، فکری شعور، اللہ کی نعمتوں کا ادراک اور اپنے اندر جذبات ِشکر کی پرورش بھی ہونا چاہئے۔