مسلم منافرت پر مبنی بیان دینے والے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو کے تعلق سے سابق چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے ایک بڑا انکشاف کیا ہے۔ چندرچوڑ کا کہنا ہے کہ وہ شروع سے جسٹس شیکھر یادو کی تقرری کے خلاف تھے۔ انھوں نے اس کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی کو خط بھی لکھا تھا۔
واضح رہے کہ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی ایک تقریب میں مسلمانوں کے خلاف متنازعہ بیان دینے کے بعد سے ہی الٰہ آباد ہائی کورٹ کے موجودہ جج جسٹس شیکھر یادو سرخیوں میں ہیں۔ وہ اس سلسلے میں گزشتہ منگل کے روز سپریم کورٹ کے کالجیم کے سامنے پیش بھی ہو چکے ہیں۔ ان کے بارے میں چندرچوڑ نے ‘لائیو لاء’ سے بات چیت کے دوران بتایا کہ انھوں نے رنجن گگوئی کی صدارت والے کالجیم کو خط لکھ کر شیکھر کمار یادو کو بطور الٰہ آباد ہائی کورٹ جج تقرری دینے کی سخت مخالفت کی تھی۔
جسٹس چندرچوڑ کا کہنا ہے کہ ”یہ سچ ہے کہ میں نے شیکھر کمار یادو کے ساتھ ساتھ کئی دیگر ناموں کی بھی مخالفت کی تھی۔ اس کی وجہ نیپوٹیزم، تعلقات اور دیگر تعصبات سے جڑے معاملے تھے۔” حالانکہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کسی جج کا رشتہ دار ہونا از خود نااہلی کی وجہ نہیں ہے، لیکن تقرری اہلیت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ چندرچوڑ نے جسٹس شیکھر یادو کے متنازعہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”ایک موجودہ جج کو ہمیشہ دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ کیا بول رہا ہے، چاہے وہ عدالت کے اندر ہو یا باہر۔ جج کے بیان سے ایسا پیغام نہیں جانا چاہیے جس سے عدلیہ کے جانبدار ہونے کا شبہ پیدا ہو۔”
قابل ذکر ہے کہ جسٹس شیکھر کمار یادو نے 8 دسمبر 2024 کو وی ایچ پی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندو مسلمانوں سے یہ امید نہیں کرتے کہ وہ ان کی تہذیب کو مانیں، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ان کی تہذیب کی توہین نہ کریں۔ اس تقریب میں یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کے موضوع پر بات کرتے ہوئے جسٹس کمار نے یہ بھی کہا تھا کہ ”تعدد ازواج، تین طلاق یا حلالہ کے لیے کوئی بہانہ نہیں ہے اور یہ رواج اب نہیں چلیں گے۔”
جسٹس شیکھر کمار نے اپنے متنازعہ بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ ”مجھے یہ بات کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ ملک ہندوستان اکثریتی طبقہ کے مطابق چلے گا۔ یہ قانون ہے۔ میں یہ بات ہائی کورٹ کے جج کے طور پر نہیں بول رہا ہوں۔ آپ اپنے پریوار یا سماج کو ہی لیجیے کہ جو بات زیادہ لوگوں کو منظور ہوتی ہے اسے ہی قبول کیا جاتا ہے۔” جسٹس کمار نے اپنے بیان میں ‘کٹھ ملا’ لفظ کا بھی استعمال کیا تھا۔ شیکھر کمار کے مطابق ‘یہ جو کٹھ ملا ہیں’ یہ لفظ صحیح نہیں ہے لیکن کہنے میں مجھے کوئی جھجک نہیں ہے کیونکہ یہ ملک کے لیے بُرے ہیں۔ ملک کے لیے خطرناک ہیں، ملک کے خلاف ہیں۔ یہ عوام کو اکسانے والے لوگ ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ملک آگے نہ بڑھے۔ ان سے حتی الامکان محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہماری تہذیب میں بچے ‘ویدک منتر’ اور عدم تشدد سیکھتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ مختلف تہذیب میں بچے جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر سے ہمدردی اور برداشت کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔