مکاتب، اسلامی اسکول اور دینی مدارس (۲)

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

 یہ تو اُن بچوں اور بچیوں کے مسائل کا حل ہے جو پوری طرح عصری تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں؛ لیکن ہمارے دینی مدارس کو بھی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی راہ نکالنی چاہئے کہ مدرسہ میں پڑھنے والے بچے عصری علوم سے ناآشنا نہ رہ جائیں ، علماء کے اپنے عہد کے تقاضوں سے باخبر بنانے کے لئے مدارس کو اپنے نظام میں کچھ تبدیلیاں لانے کی بھی ضرورت ہے، اس میں سب سے اہم مسئلہ زبان کا ہے، انگریزی زبان اس وقت عالمی رابطہ کی زبان ہے، یہ زبان نہ صرف غیر مسلموں تک اسلام کی د عوت پہنچانے کے لئے ضروری ہے؛ بلکہ خود مسلمانوں کی نئی نسل بھی تیزی سے اُردو کی گرفت سے باہر ہوتی جارہی ہے؛ اس لئے ہمیں ایک طرف اردو زبان کی ترویج کی کوشش کرنی چاہئے، اور دوسری طرف علماء کو انگریزی زبان سے آراستہ کرنا چاہئے، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ آج اسلام کے خلاف جو کچھ لکھا جا رہا ہے اور علمی وفکری جہت سے دین حق پر جو یلغار ہو رہی ہے، وہ زیادہ تر اسی زبان میں ہے، اگر علماء اس زبان کے سمجھنے اور اسی میں اپنا ما فی الضمیر ادا کرنے کے لائق نہ ہو سکے تو وہ اسلام کی حفاظت واشاعت کا فریضہ صحیح طور پر انجام نہیں دے سکتے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جس کو نظر انداز کرنا چڑھتے سورج سے آنکھیں موندنے کے مترادف ہوگا، ایک صاحب ِعلم نے لکھا ہے کہ انگریزی زبان کی ناواقفیت کی وجہ سے علماء اس صدی میں مقام احترام پر تو فائز ہوئے؛ لیکن مقام قیادت پر فائز نہیں ہو سکے، میرا خیال ہے کہ یہ بات بڑی حد تک درست ہے۔

 زبان محض ایک ذریعۂ اظہار ہے، اس کا صحیح وغلط اور مناسب ونامناسب استعمال مفید یا مضر ہوا کرتا ہے، کوئی بھی زبان اسلام کی نگاہ میں بذات خود ناپسندیدہ نہیں؛ اس لئے انگریزی زبان پر دسترس آج وقت کی اہم ضرورت ہے، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دیوبند کے ابتدائی نصاب تعلیم میں سنسکرت کو بھی داخل نصاب کیا تھا، یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ علماء نے کبھی انگریزی زبان کی مخالفت نہیں کی، سر سید احمد خان مرحوم کے بعض افکار جمہورِ اُمت کے خلاف تھے، اور وہ انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی تہذیب وثقافت کی طرف بھی جھکاؤ رکھتے تھے، علماء نے اس میلان ورجحان سے اختلاف کیا تھا، موجودہ حالت میں خاص طور پر انگریزی زبان کی ایک خاص اہمیت ہوگئی ہے، جس سے کسی بھی طرح صَرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔

 انگریزی کے علاوہ معاشیات، سیاسیات کی مبادی، تاریخ، جغرافیہ اور حساب وغیرہ کے بارے میں بھی ضروری حد تک آگہی علماء کے لئے ضروری ہے؛ اس لئے کہ بہت سے شرعی مسائل اور دینی حقائق ان ہی مضامین سے متعلق ہیں۔

  ان مضامین کے لئے جگہ نکالنے کی دو صورتیں ہیں، ایک صورت تو یہ ہے کہ موجودہ نظام تعلیم میں ششم عربی تک چھ کی بجائے سات یا آٹھ گھنٹیاں کر دی جائیں اور یہ زائد گھنٹیاں ان مضامین کے لئے رکھی جائیں، اور اس کے لئے کچھ اور گنجائش پیدا کرنے کی غرض سے منطق اور فلسفہ کی قدیم کتابوں کو اصطلاحات کی شرح ووضاحت تک محدود کر دیا جائے، جیسے: منطق میں مرقات،شرح تہذیب، قطبی اور سلم العلوم اکثر مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں، گویا چار سال یہ مضمون پڑھائے جاتے ہیں، اسی طرح قدیم فلسفہ میں ہدایۃ الحکمۃ، ہدیہ سعیدیہ اور میبذی کے اسباق ہوتے ہیں، ان تین کتابوں کے لئے دو سال میں ایک ایک گھنٹی دی جاتی ہے، اب اگر منطق کے لئے دو گھنٹی اور قدیم فلسفہ کے لئے ایک گھنٹی پر اکتفاء کر دیا جائے تو مزید تین گھنٹیاں نکل آتی ہیں، اسی طرح عربی کی ابتدائی جماعتوں میں بعض اسباق جو روزانہ ہوا کرتے ہیں، اگر ہفتہ میں چار دن ہوں تب بھی کتاب پوری ہو سکتی ہے، اس طرح ہفتہ میں دو دن کا وقت خالی کیا جا سکتا ہے، اگر ہم اس طرح وقت نکالیں تو معمولی تبدیلی کے ساتھ ان ضروری مضامین کے لئے وقت فراہم ہو سکتا ہے۔

 دوسری اور اس سے اعلیٰ صورت یہ ہے کہ میٹرک تک تعلیم ہر طالب علم کو دی جائے؛ البتہ اس میں شروع سے تین گھنٹیاں اسلامیات کے لئے لے لی جائیں اور میٹرک کے بعد جیسے پانچ سال میں انٹر اور گریجویشن ہوتا ہے، اسی طرح پانچ سال میں عالم کورس کو مکمل کیا جائے، اگر میٹرک تک عربی نحو وصرف ، ادب، ضروری فقہی مسائل وغیرہ کی مبادیات طلبہ پڑھ چکے ہوں تو اس پانچ سال میں جو عربی واسلامی علوم ہی کے لئے مخصوص ہوں، بہ سہولت درسِ نظامی کی تکمیل کر سکتے ہیں، اور چوں کہ یہ پوری تعلیم مدرسہ کے ماحول میں ہوگی؛ اس لئے اسلامی خطوط پر اُن کے ذہن ومزاج کی نشوونما ہوتی رہے گی، مدارس کا موجودہ نصاب نو سالہ عالم کورس اور چار تا پانچ سالہ شعبۂ ابتدائی پر مشتمل ہے، گویا تیرہ چودہ سال کا عرصہ اس کورس کی تکمیل پر لگتا ہے، اور اگر میٹرک کے ساتھ عالم کورس ہو تو اس کی مدتِ تعلیم ۱۵؍ سال ہو جائے گی، یعنی ۱۹؍۲۰؍ سال کے عرصہ میں لڑکے میٹرک کرنے کے ساتھ ساتھ عالم کورس مکمل کر لیں گے، گویا یہ اسلامی علوم میں گریجویشن کرنے کے مماثل ہوگا، اب جو طلبہ باصلاحیت ہوں وہ تخصص اور تحقیق کے شعبوں میں پڑھ سکتے ہیں، یہ دوسری صورت زیادہ بہتر ہے اور اس طرح جدید وقدیم کے درمیان جو فاصلہ محسوس کیا جاتا ہے، اسے بہتر طریقہ پر پُر کیا جا سکے گا۔

 نئی نسلوں کو ایمان ودین پر باقی رکھنے کے لئے مدارس اور اسکولوں سے بڑھ کر مکاتب کا کردار ہے، افسوس کہ اس جہت سے دیہاتوں کے حالات بہت خراب ہیں،اس وقت صورت حال یہ ہے کہ علماء کی ساری تعلیمی اور دعوتی سرگرمیاں شہروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں، شہر میں نہ صرف یہ کہ ہمارے دینی تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں؛ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بعض مقامات پر زائد از ضرورت ادارے قائم ہو رہے ہیں، چھوٹے چھوٹے محلوں میں ایک سے زیادہ درسگاہیں قائم ہیں، وہاں طلبہ کی تعداد اتنی کم ہے کہ ایک ادارہ ان کے لئے کافی تھا، پھر اُن اداروں میں باہم کمرشیل اداروں کی طرح رقابت اور منافست کی کیفیت بھی ہے، بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کمیٹی میں اختلاف ہوگیا، ایک گروہ مدرسہ پر قابض ہوگیا، دوسرے گروہ نے قریب ہی دوسرا مدرسہ کھول لیا، گویا ادارے کسی ضرورت یا خدمت کی کسی نئی جہت کے لئے قائم کرنے کے بجائے محض مقابلہ اور تفاخر کے جذبہ سے بھی قائم کئے جارہے ہیں، یہ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ ایک دینی کام دینی جذبہ سے خالی ہو کر انجام دیا جائے!

 اس کے برخلاف دیہاتوں کا حال دیکھئے، بہت سے دیہات ایسے ہیں، جہاں کوئی نماز پڑھانے والا میسر نہیں اور بہت سی لاشیں بغیر نماز کے دفن کر دی جاتی ہیں، کہیں قادیانی حملہ زن ہیں، کہیں ہندو فرقہ پرست تنظیمیں مسلمانوں کو مرتد کرنے پر کمر بستہ ہیں، کہیں عیسائی مشنریز ایمان پر ڈاکہ ڈال رہی ہیں، جہالت کا حال یہ ہے کہ محرم رشتوں کا پاس ولحاظ بھی اُٹھ چکا ہے، ہندو رسم ورواج سے متأثر ہو کر ماموں بھانجی میں نکاح ہوتا ہے، اور چچا زاد بھائی سے نکاح نہیں ہوتا، مسلمان طرح طرح کی اخلاقی اور سماجی برائیوں میں مبتلا ہیں، اور سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص تک نہیں پڑھ سکتے؛ بلکہ کتنے ہی لوگ ہیں، جو کلمۂ طیبہ اور کلمۂ شہادت سے بھی محروم ہیں، آخر اُن ناواقف مسلمانوں کی اصلاح وہدایت کی ذمہ داری کن پر ہے، کیا علماء اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو سکتے ہیں؟

 حقیقت یہ ہے کہ دیہاتوں میں مکاتب کے قیام کی ضرورت ہے، ان مکاتب میں چھوٹے بچوں کی تعلیم بھی ہو اور تعلیم بالغان کا بھی انتظام ہو، جس کے ذریعہ ضروریات دین سے لوگ واقف ہو جائیں، سب سے اہم مسئلہ ان دیہاتوں میں کام کرنے والے لوگوں کا ہے، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے فضلاء شہر کی رونقوں کو چھوڑ کر دیہاتوں میں جانے اور کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، یہاں تک کہ جو لوگ دیہاتوں میں پیدا ہوئے اور دیہات کے ماحول میں ان کی نشوونما ہوئی، وہ بھی شہر کی آب وتاب پر اس قدر ریجھ جاتے ہیں کہ دیہات کی طرف واپس جانے کو تیار نہیں ہوتے، یہ نہایت ہی افسوس ناک صورتِ حال ہے، مقام حیاء ہے کہ عیسائی مشنریز تو یورپ اور امریکہ سے آکر ہندوستان کے پسماندہ ترین دیہاتوں میں کام کریں اور عیسائیت کو پھیلانے میں اپنی پوری قوت صرف کر دیں، اس کا نتیجہ آپ آندھرا اور بعض اور علاقوں کے دیہاتوں میں جا کر دیکھ سکتے ہیں، جہاں جگہ جگہ نو تعمیر شدہ چرچ آپ کو نظر آئیں گے، قادیانی ختم نبوت کے باغی ہیں اور اسلام کو سخت نقصان پہنچانے کے درپے ہیں؛ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ کشمیر اور پنجاب جیسے دور دراز علاقوں سے ان کے مبلغین آتے ہیں اور ایسے گاؤں میں کام کرتے ہیں، جہاں موٹر اور بس کے پہنچنے کے لئے راستے تک میسر نہیں ہیں؛ بلکہ بعض اوقات یہ گورے چٹے نوجوان دیہات کی کالی کلوٹی، اَن پڑھ اور غیر مہذب لڑکیوں سے نکاح بھی کر لیتے ہیں؛ تاکہ انہیں جائے پناہ میسر آجائے اور وہ اسے اپنے مشن کے لئے تیار کریں؛ لیکن ہمارے فضلاء جو یقیناََ حاملین حق ہیں اور جن کا مقصدِ زندگی ہی اسلام کی حفاظت واشاعت ہے، وہ ایسے مقامات پر جانے اور شہر وقصبات سے آگے قدم بڑھانے کے لئے تیار نہیں۔

 مدارس عام درس گاہوں کی طرح محض درس گاہ نہیں؛ بلکہ حفاظت اسلام کی ایک زندہ تحریک ہے اور اگر یہ مدارس کسب معاش کے پیشوں میں سے ایک پیشہ نہیں؛ بلکہ یہ آخرت کی ’’ تجارت رابحہ‘‘ ہیں، اگر ہم احیاء اسلام کی مساعی کا ایک حصہ ہیں اور اس کاروانِ عزیمت سے نسبت رکھتے ہیں، جس نے اس ملک میں دین کی بقاء وارتقاء کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی، تو یہ ہمارے لئے ایک امتحان ہے کہ کیا ہم زندگی کی معمولی سہولتوں کی قربانی کو بھی دین اور اُمت کے لئے گوارا نہیں کر سکتے؟ کیا ہم ان اہل باطل سے بھی گئے گزرے ہیں، جو اپنے فاسد عقیدے کی سوغات لے کر سماج کو بے روح بنانا چاہتے ہیں! یہ وقت کا نہایت اہم مسئلہ ہے کہ فضلاء مدارس دیہاتوں میں کام کریں، وہاں تعلیمی ادارے قائم کرنے کو تیار ہوں اور اس کو اپنا فریضۂ منصبی سمجھیں۔

۰ ۰ ۰

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com