ملک میں اقتصادی ڈھانچوں کے اصلاح کار، ملک کی ترقیاتی منصوبوں کے معمار، سماجی مساوات کے طرفدار اور ایک ایماندار رہنما کے انتقال سے غمگین ہوں: مولانا اجمل
نئی دہلی: آل انڈیایو نائیٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے قومی صدر، جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر، اورسابق رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل نے ہندوستان کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ : ” آج ہم نے ایک ایسی انقلابی شخصیت کو کھو دیا جس نے ملک کو اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں انتہائی اہم اور شاندار کردار ادا کیا، جنہوں نے وزیر خزانہ کے طور پر ایک ایسے اقتصادی انقلاب کی بنیاد رکھی جس نے ہندوستان کو دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں سے ایک بنا دیا ۔ انھوں نے وزیر اعظم کے طور پر ملک میں استحکام اور شمولیتی ترقی کی داغ بیل ڈالی، ان کی بنائی ہوئی پالیسیوں نے ان ترقیات کی بنیاد رکھی جو ملک نے بعد کے سالوں میں حاصل کی۔وہ صرف ایک ممتاز اسکولر، معروف ماہر اقتصادیات ہی نہیں تھے بلکہ ایک ایماندار، محنتی اور پسندیدہ رہنما تھے جن کو ہر طبقہ بشمول ان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے عزت و احترام حاصل تھا۔ ان کی قیادت کو ایمانداری،اقتصادی اصلاحات، اور سماجی مساوات پر توجہ دینے اور اس کے لئے عملی اقدام کرنے کے لئے یاد رکھا جائے گا۔ “مولانا اجمل نے مزید کہا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنے دور حکومت میں مختلف شعبوں میں اصلاحات اور ترقی کے لئے نمایاں اقدامات کی منصوبہ بندی کی جن میں اقتصادی ترقی، سماجی بہبود، زرعی اصلاحات، مالی شمولیت، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، ماحولیاتی پائیداری، اور تعلیم کی بہتری نیز صحت کی خدمات تک رسائی کو آسان بنانا شامل ہیں۔ انھوں نے ہندوستان کے بین الاقوامی تعلقات کو دیگر ممالک کے ساتھ مضبوط بناکر اسے عالمی سطح پر ایک اہم پہچان دلانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ مولانا نے کہا کہ میرا ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کے ساتھ خصوصی تعلق تھا جس کا وہ بہت لحاظ رکھتے تھے، جب بھی آسام کے لئے کوئی پروجیکٹ یا آسام کے لوگوں کی کسی پریشانی کو لیکر ان کے پاس جاتا وہ انتہائی گرمجوشی سے ملتے، مسائل کو سنتے اور اس کے حل کے لئے حکم جاری کرتے۔آسام کے دھبری ضلع میں برہم پتر ندی پر بننے والے Dhubri-Phulbari Briedge کو ڈاکٹر منموھن سنگھ جی نے ہی پاس کیا تھا، بعد میں جس کا کام نتن گڈگری جی کی کوشش سے شروع ہوا۔ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کو جمعیۃ علماء ہند سے خصوصی لگاؤ تھا بالخصوص جمعیۃ علماء ہند کے سابق صدر حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ کا بہت احترام کرتے تھے۔ وہ ایک ایسے امن پسند، سیکولر اور محترم رہنما تھے جو دوسرے مذاہب و عقائد کی قدر کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کئی بار ہم ان سے ملنے گئے اور جب نماز کا وقت آتا تو وہ ہمیں اپنے کمرے میں نماز پڑھ لینے کی دعوت دیتے۔ مولانا اجمل نے مزید کہا کہ ڈاکٹر صاحب کا آسام سے خصوصی تعلق تھا کیونکہ وہ 1991 سے لیکر 2019 کے درمیان پانچ مرتبہ آسام سے راجیہ سبھا ممبر منتخب ہوئے۔ کانگریس سے سیاسی اختلافات کے باوجود ہماری پارٹی کے ایم ایل اے نے بھی ڈاکٹر سنگھ کو راجیہ سبھا میں منتخب کرنے کے لئے ووٹ دیا۔ وہ وزیر اعظم بننے کے بعد ملکی اور عالمی سطح پر مزید اثرو رسوخ والے بن گئے مگر آسام کے ساتھ ان کا تعلق اور خصوصی وابستگی ہمیشہ ان کی شناخت کا یک اہم حصہ رہا۔ وہ آسام اور شمالی ہند کی ریاستوں کی ترقی کے لئے خصوصی توجہ دیتے تھے۔ وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن وہ اپنی قربانیوں اور اپنے نمایاں کارناموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔