مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ)
دوسری عالمی جنگ کے بعد پوری دنیا میں اس قدر لڑائیاں کبھی نہیں ہوئیں جتنی اس وقت ہورہی ہیں، عالمی طورپر دیکھیں تو برانوے (92) ممالک میں اس وقت سرد اورگرم جنگ چھڑی ہوئی ہے،چھپن (56) ایسے ممالک ہیں، جہاں عملاً جنگ چھڑی ہوئی ہے، سنتانوے (97) ایسے ممالک ہیں جو تیزی سے بدامنی کی طرف بڑھ رہے ہیں،اس قسم کے 65% فی صد مسائل گذشتہ تین سالوں میں پیدا ہوتے ہیں، جنگ کے دوران ہونے والی ہلاکتوں میں تیس (30) فی صد کا اضافہ ہو اہے، امن اور بدامنی کو ناپنے کا ایک پیمانہ GPI ہوتا ہے، اسے ایک سے پانچ اسکیل پر ناپتے ہیں، ایک نمبر کا مطلب، سب سے زیادہ پُرامن اور پانچ کا مطلب ہے، سب سے کم امن، اس کے مطابق سب سے زیادہ پرامن ملک اس وقت آئس لیند (1.112) آئرلینڈ (1.303)، آسٹریا (1.313)، نیوزی لینڈ (1.323) سنگاپور (1.339) رینک کے اعتبار سے علی الترتیب ایک سے پانچ تک ہے۔
بدامنی والے ملک کی بات کریں تو ایک نمبر پر یمن (3.397)، سوڈان(3.327)، جنوبی سوڈان(3.324)، افغانستان(3.294) اور یوکرین(3.28) جی پی آئی اسکور کے ساتھ علی الترتیب ایک سے پانچویں رینک پر ہے، غزہ، فلسطین، اسرائیل، ایران، لبنان وغیرہ کی بدامنی اور جنگی صورت حال ایسی ہے کہ وہ GPI اسکور کے اندر نہیں سما پاتا ہے، اس لیے اسے ریکنکنگ سے باہر رکھا گیا ہے، جن ملکوں کو بڑے نقصان کا سامنا درج بالا ممالک کے علاوہ ہے اس میں افغانستان (53.2) اور اتر کوریا (41.6) پر ہے، کانفلکٹ انڈے سیٹی انڈکس کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں گذشتہ ایک سال میں بدامنی (1.6)فی صد کمی ہے، جب سے ریکنگ جاری ہونے لگا ہے، تب سے یہ بھارت کی سب سے اچھی حالت ہے، اس وقت بھارت پر امن ملکوں کی فہرست میں 116ویں مقام پر ہے، 2019میں اسے 141واں مقام ملا تھا۔
2008 میں (GPI)گلوبل پیس انڈکس کی شروعات ہوئی تھی، امن کے معاملہ میں اوسط اسکور 4.5%فی صد کم ہوا ہے، دنیا میں امن وسکون کے حالات کے بارے میں 0.65کی گراوٹ درج کی گئی ہے، گلوبل پیس انڈکس میں 163ممالک ہیں، جن میں 97 کی حالت خراب ہوئی ہے، جنگوں میں چین، روس کا دبدبہ بڑھا ہے اور امریکہ کی دادا گیری کم ہوئی ہے، دوسری طرف ملکوں میں خانہ جنگی کا سلسلہ نہ صرف بڑھا ہے، بلکہ تختہ پلٹ کی کاروائی بھی ہورہی ہے، بنگلہ دیش اور شام کی مثال ہمارے سامنے ہے، بہت ساری جنگیں بے نتیجہ رہی ہیں،1970تک 49 فی صد جنگیں ایسی ہوتی تھیں، جس میں ایک فریق پوری طرح جیت جاتا تھا اور دوسرا فریق شکست سے ہم کنار ہوتا تھا، اب یہ ہار جیت کا تناسب 9%فی صد سے کم رہ گیاہے، پر امن سمجھوتوں کے ذریعہ لڑائی کے اختتام کے واقعات میں بھی بے انتہاکمی آئی ہے۔ 1970میں سمجھوتوں کی بنیاد پر جنگ کے اختتام کا تناسب 23%فی صد تھا جو اب گھٹ کر صرف4%فی صد ہی رہ گیا ہے۔
تکنیکی اعتبار سے بھی طریقہ کار میں تبدیلی آئی ہے، اب زمینی جنگیں کم ہوتی ہیں، یعنی جنگوں میں دو بدو اور آمنے سامنے کا تصور ختم ہوتا جا رہاہے، فضائی اور ڈرون حملوں کے ذریعہ پہلے جنگی اور فوجی تنصیبات کو بر باد کیا جاتا ہے اور جب سارے ایربیس، راڈار وغیرہ ختم ہوجاتے ہیں،تب فوج زمین پر اتر تی ہے ایسے میں حملہ آور ملک کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اورجس ملک کو محاذ جنگ بنایا گیا وہ مفتوح ہوجاتا ہے، عراق میں صدام کے دور حکومت میں عراق کو تباہ کرنے اور ابھی فلسطین میں یہی تکنیک استعمال کی جا رہی ہے، اس بات کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ 2018 اور2013کے درمیان ڈرون ٹیکنیک استعمال کرنے والے ملکوں کی تعداد صرف سولہ(16) تھی جو اب بڑھ کر چالیس (40)ہو گئی ہے، اس معاملہ میں اگر مبینہ دہشت گردوں کو بھی شامل کر دیں تو یہ تعداد 91کو پہونچتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ اس میں 1400گنا اضافہ ہوا ہے، 2023میں ڈرون حملوں کی تعداد4957درج ہوئی تھی، جبکہ 2018میں یہ تعداد صرف 421تھی۔
دنیا جنگوں کو مسائل کا حل سمجھ رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے، یہ مسئلوں کا حل کیا دے گی، بلکہ کہنا چاہیے کہ یہ جنگ مسائل پیدا کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔
جنگوں کا نتیجہ ہمیشہ غریبی، نقل مکانی اور موت کی شکل میں سامنے آتا رہا ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا کہ 2023 میں تشدد اور جنگ کی وجہ سے عالمی معاشی نظام کو 19.1 ٹریلین امریکی ڈالر (تقریباً 1612 لاکھ کڑوڑ روپے) کا نقصان اٹھانا پڑا، یہ دنیا کی کل GDP کا13.5 فی صد ہے، اس کا مطلب ہے کہ دنیا کی پوری آبادی پر فی کس 2380ڈالر (جو ہندوستانی کرنسی تقریباً 1,90300 روپے کے بقدر ہے) کا خرچ پڑا۔
جنگ کے نتیجے میں اصل آبادی ملک سے نقل مکانی کرکے دوسرے ملکوں میں رفیوجی کی طرح زندگی گذارنے پر مجبور ہوتی ہے، شام کی دس سال سے زائد خانہ جنگی کے نتیجے میں کہا جاتا ہے کہ پندرہ لاکھ سے زائد لوگوں نے دوسرے ملکوں میں پناہ لی، میاں مار کے روہنگیا آج بھی بڑی تعدادمیں ہندوستان میں پناہ گزیں ہیں، ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر 9.5 کڑوڑ سے زیادہ لوگ یاتو رفیوجی ہیں یا دوسرے ملک کی شہریت لے چکے ہیں، دنیا کے سولہ (16)ممالک ایسے ہیں جہاں کے پانچ فی صد لوگ جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔
جنگ کے نتیجے میں بے شمار لوگ جان سے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، غزہ اور یوکرین کو چھوڑ دیں تب بھی آرمڈ کی کنپلکٹ سروے کے مطابق گذشتہ ایک سال میں پر تشدد واقعات میں مرنے والوں کی تعداد 37% فی صد بڑھی ہے، 2023میں تصادم میں مرنے والوں کی تعداد 1.7 لاکھ تھی یہ تعداد 2024میں 2.3 لاکھ تک پہونچ گئی ہے، ساحر لدھیانوی کہتے ہیں ؎
اس لیے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے