معصوم مرادآبادی
یہ 2009 کا قصہ ہے۔ عام انتخابات کی تیاریاں زوروں پر تھیں ۔ ایک دن وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر ڈاکٹر ہریش کھرے کا فون آیا۔ انھوں نے کچھ ضروری گفتگو کے لیے مجھے اپنے دفتر مدعو کیا ۔شام کو جب میں ساؤ تھ بلاک میں واقع وزیراعظم کے دفتر پہنچا تو ہریش جی نے کہا ’’وزیراعظم، اردو کے کچھ سرکردہ صحافیوں سے ملنا چاہتے ہیں، کیا آپ اس میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔‘‘ میں نے ہامی بھرلی اور ایک ہفتہ بعد نئی دہلی کے اشوکا ہوٹل میں ملک بھر کے سرکردہ اردو صحافیوں سے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی نہایت کارآمد ملاقات ہوئی ۔ ایک گھنٹے سے زیادہ سوال و جواب کا سلسلہ چلا اور پرتکلف عشائیہ پر یہ میٹنگ ختم ہوگئی ۔ کچھ دن بعد وزیراعظم کے گھر پر افطارپارٹی تھی۔ ہریش کھرے جی میرا ہاتھ پکڑ کر ڈاکٹر منموہن سنگھ کے پاس لے گئے اور مذکورہ میٹنگ کے حوالے سے میرا تعارف کرایا ۔ وزیراعظم نے جس انداز میں اظہارِ تشکر کیا ، اسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ یہ ان کی خاص ادا تھی۔ ایک صحافی کے طورپر یوں تو درجنوں سیاست دانوں سے ملنے کا موقع ملا ہے لیکن جو عاجزی اور انکساری ڈاکٹر منموہن سنگھ کے اندر تھی ، وہ کہیں دیکھنے کو نہیں ملی۔ آج ان کے انتقال کے بعد میڈیا میں سب سے زیادہ چرچے ان کی اسی انکساری اور عاجزی کے ہورہے ہیں جو ان کی خاص پہچان تھی۔ وزیراعظم کے عہدے تک پہنچنے کے باوجود انھوں نے اسے ترک نہیں کیااوروہ ایک عام آدمی کی طرح زندہ رہے۔ وہ بنیادی طورپر ایک شریف النفس اور خاموش طبع انسان تھے۔
انھوں نے اپنی سیاسی پاری کا آغاز نرسمہاراؤ کے دور میں بطور وزیرخزانہ کیا تھا۔ اس سے پہلے ان کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا۔ وہ ایک بیوروکریٹ اور معاشیات کے ماہر تھے۔ حادثاتی طورپر وزیراعظم بنے تھے ، لیکن انھوں نے اس ذمہ داری کو جس خوش اسلوبی سے نبھایا ، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کے سیاسی مخالفین ان پر ایک “کمزور وزیراعظم” ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں، لیکن انھوں نے اپنی اس کمزوری کو ایسی طاقت میں بدل دیا تھا کہ ان کے دور اقتدار میں ملک کو کبھی شرمندگی یا ندامت سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔ آج ملک میں اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو اقتدار کا بہت گھمنڈ ہے اور وہ خودکو بہت طاقتور بھی ثابت کرتے ہیں مگر ان کے پاس ملک کودرپیش سنگین مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے نہایت نازک حالات میں ملک کو معاشی بحران سے نکالا تھا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ نے درست ہی کہا تھا کہ ان کے بارے میں تاریخ زیادہ درست فیصلہ صادر کرے گا۔ان کے اس بیان کی حقیقت ان کے انتقال کے بعد زیادہ بہتر انداز میں عیاں ہوئی ہے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ نے گزشتہ جمعرات (26 دسمبر 2024) کو جب 92 سال کی عمر میں وفات پائی تو پورا ملک ان کے سوگ میں ڈوب گیا۔سبھی نے ان کی شرافت ، ایمانداری ، انکساری اور محبوبیت کے تذکرے کئے ۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنا ہی تھا۔ایک ایسے دور میں جب دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں ڈانواں ڈول تھیں، انھوں نے اپنی سوجھ بوجھ سے ہندوستانی معیشت کو سہارا دیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے کچھ اور بھی کارنامے ہیں جن کی وجہ سے انھیں یاد رکھا جائے گا۔اردو زبان اور مسلمان ان کی توجہ کا خاص مرکز تھے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ اس ملک کے وسائل پر سب سے زیادہ حق مظلوم اور بے کس لوگوں کا ہے اور ان میں مسلمان سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین آج بھی اس بیان کی وجہ سے انھیں نشانہ بناتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ زمینی سچائیوں کو سمجھتے تھے اور ان کا برملا اظہار بھی کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے انھوں نہ اپنے پہلے دوراقتدار میں مسلمانوں کے تعلق سے ایک انقلابی قدم اٹھایا۔ 2005 میں انھوں نے ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس راجندرسچر کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی اور اسے یہ کام سونپا کہ وہ ملک گیر سطح پر مسلمانوں کی معاشی ، سماجی ، سیاسی اور تعلیمی صورتحال کا جائزہ لے۔ کمیٹی کے ارکان میں ڈاکٹر ابوصالح شریف ،سید حامد، ایم اے باسط اور اخترمجید جیسے لوگ شامل تھے۔
اس کمیٹی نے پورے ملک میں گھوم کر مسلمانوں کی تعلیمی ، سماجی ، معاشی اور سیاسی صورتحال کا جائزہ لے کر یہ انکشاف کیاکہ ملک میں مسلمان سب سے زیادہ پسماندہ قوم ہیں اور یہ پسماندگی دلتوں سے بھی ابتر ہے۔اس رپورٹ میں مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب کے ساتھ ان کی جامع ترقی کے لیے ٹھوس تجاویز اور حل پیش کئے گئے۔سچر کمیٹی نے ہندوستان میں مسلمانوں کی پسماندگی اور عدم مساوات کے مسئلے کو قومی توجہ کا مرکز بنایا اور مسلمانوں کی زبوں حالی سے متعلق ایک نئی بحث کو جنم دیا۔ اس سے پہلے دائیں بازو کی طاقتیں کانگریس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگاتی تھیں ۔ اس الزام کو سچر کمیٹی کی رپورٹ نے پوری طرح باطل قراردے دیا ۔کمیٹی کی سب سے اہم سفارش مساوی مواقع کمیشن کے قیام کی سفارش تھی تاکہ امتیازی شکایتوں کو حل کرنے کے لیے ایک قانونی طریقہ کار فراہم کیا جاسکے ۔ سچر کمیٹی نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی تھی کہ ہندوستانی مسلمانوں کو معاشی ، سیاسی اور سماجی دھارے میں مکمل طورپر شامل ہونے سے روکنے والی اڑچنوں کا ازالہ کیسے کیا جائے۔
یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ تھی جس نے ہندوستانی مسلمانوں کی’ پسماندگی ‘کو دستاویزی شکل میں پیش کیا تھا۔ اس سے پہلے مسلمانوں کی حالت زارکا جائزہ لینے کے لیے گوپال سنگھ کی قیادت میں جو پینل تشکیل دیا گیا تھا ، اس کی سفارشات پر کوئی عمل نہیں ہوا ، مگر منموہن سنگھ نے ایسا نہیں کیا ۔انھوں نے سچر کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں اقلیتی امور کی مرکزی وزارت قائم کی اور اس کے لیے معقول بجٹ فراہم کیا۔ یہ آزاد ہندوستان میں اپنی نوعیت کی پہلی وزارت تھی ، جس کا پہلا وزیر مہاراشٹر کے سابق وزیراعلیٰ عبدالرحمن انتولے کو بنایا گیا تھا۔اس وزارت کا بنیادی مقصد اقلیتوں میں تعلیم اور استعداد کا فروغ تھا۔اقلیتی امور کی وزارت نے اقلیتی طلباء کے لیے اسکالر شپ اسکیمیں شروع کیں اور اسکل ڈیولپمنٹ کے لیے بھی کوششیں کیں ۔ مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعہ طالبات کی تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کے لیے اہم اقدامات کئے گئے۔منموہن سنگھ کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعدنہ صرف یہ کہ مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا خاتمہ کردیا گیا بلکہ اس وزارت کے بال وپر بھی کتر دئیے گئے ۔ اب یہ محض نام کی وزارت رہ گئی ہے۔اقلیتی طبقہ کے طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ملنے والی اسکالر شپ بھی ختم کردی گئی ہے۔بلاشبہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنے دور اقتدار میں سماج کے کمزور طبقوں اور بالخصوص اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے لیے جو بنیادی کام کئے، اس کے لیے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کا دوسرا عشق اردو زبان تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم ایک اردو مکتب میں ہوئی تھی ۔ جب وہ وزیراعظم بنے تو ان کے دفترمیں باقاعدہ پی آئی بی کے اردو سیکشن سے ایک اردو آفیسر (منظر نیاز) کی تقرری عمل میں آئی جو ان کی تقریروں کو اردو رسم الخط میں کمپوز کرتے تھے۔ منموہن سنگھ چونکہ ہندی رسم الخط سے واقف نہیں تھے ، اس لیے ان کی ہندی تقریریں بھی اردو رسم الخط میں لکھی جاتی تھیں۔ یوم آزادی کے موقع پر جب وہ لال قلعہ سے قوم کو خطاب کرتے تھے تو یہ تقریر اردو رسم الخط میں لکھی ہوتی تھی۔ کئی بار اس کی تصویریں بھی عام ہوئیں۔ انھیں اردو اشعار بھی خوب یاد تھے۔ وہ خاص طورپر علامہ اقبال کی شاعری کے دلدادہ تھے۔ ایک بار پارلیمنٹ میں بی جے پی لیڈر سشما سوراج نے ایک شعر پڑھ کر ان پر طنز کیا تو انھوں نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھ کر انھیں لاجواب کردیا تھا۔
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ ، مرا انتظار دیکھ