اختلاف کے معنی ہیں ” قول و فعل یا نظریات وغیرہ میں نامواقفت ، عدمِ تطابق یا تضاد ” یہ تضاد کوئی غیر فطری چیز نہیں ہے بلکہ اصول فطرت کےعین مطابق ہے۔ یہ اختلاف دوستوں کے درمیان بھی ہوتا ہے اور حریفوں کے درمیان بھی۔ دوستانہ ماحول میں اختلاف پر رأفت اور محبت اور اکرام غالب آتا ہے جبکہ دشمن کے ساتھ اختلاف کی شدت کو ضبط نفس اور تحمل کے ذریعے سے کم کیا جاسکتا ہے ۔ یعنی اگردشمن ہو تو اس کی بات کو اس طرح بردباری سے سننا چاہیے کہ اس کو لگے کہ گویا میرا دوست میری بات کو سنجیدگی سے سن رہا ہے۔ قتیل شفائی کا یہ شعر اسی طرف مشیر ہے ۔وہ فرماتے ہیں :
ابھی تو بات کرو ہم سے دوستوں کی طرح
پھر اختلاف کے پہلو نکالتے رہنا
ذو العقول کے درمیان اختلاف کا ہونا ایک یقنی امر ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ سارے لوگ ایک بات پر متفق ہوں یا یکساں رائے رکھتے ہوں ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک اختلاف رائے کے واقعات کو اگر قلمبند کیا جائے تو ایک ضخیم کتب خانہ وجود میں آسکتا ہے ۔یہاں پر اختلاف رائے کی کوئی تاریخ رقم کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مطلوب ہے کہ اختلاف انسانی معاشرت کا حصہ رہا ہے – دورِ نبوی میں بھی اس قسم کی مثالیں ہم کو ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کے درمیان بھی کبھی کبھار امر نبوی کو سمجھنے میں اختلاف رائے ہوجاتا تھا اور طرفین کی آراء کی حضور علیہ السلام نے تصویب فرمائی ۔ بنو قریظہ کا مشہورواقعہ جب صحابہ کرام کو حضور ﷺ نے وہاں پہنچ کر نماز عصر کی ادائیگی حکم فرمایا تھا ، راستہ میں جب نماز قضا ہونے کا خدشہ ہوا تو بعض نے اصل علت کو سامنے رکھ کر راستہ ہی میں نماز پڑھ لی اور بعض نے ظاہری الفاظ کو دیکھتے ہوئے نماز قضا ہوجانے دی اور وہاں پہنچ کر ہی نماز ادا کی۔ بعد میں جب حضور ﷺ سے پوچھا گیا تو دونوں کی تصویب فرمائی۔ اس طرح کے واقعات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ علماء کی آراء کے اختلاف کو نزاع کا باعث بنانا درست نہیں، بلکہ اس اختلاف میں بھی امت کے لیے سہولت کے دروازے کھلتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ابتداءً غیر عربی میں نماز شروع کرنے (تکبیر تحریمہ کہنے) اور فارسی میں قرأت کی اجازت تھی جب کہ صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک عربی پر غیر قادر شخص (عاجز) کے لیے تو دوسری زبان میں نماز شروع کرنے کی گنجائش تھی لیکن مطلقاً اجازت نہیں – قرأت عربی کے بغیر کسی دوسری زبان میں جائز نہیں اور اسی اختلاف پر خطبہ جمعہ وعیدین ودیگر اذکار کا معاملہ مبنی ہے، اگر چہ بعد میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے صاحبین رحمہما اللہ کے قول کی طرف رجوع کرلیا تھا تاہم ان کی اس انفرادی رائے پر ان کو کسی نے کفر اور مبتدع کا فتویٰ نہیں دیا۔ امام شافعی ،امام مالک،امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ کے تفردات اہلِ علم کے نزدیک پوشیدہ نہیں ۔امام غزالی ،امام ابن تیمیہ ،امام جوزی ، اور ائمہ حدیث کے فقہی تفردات اور اصول حدیث میں منہج کا اختلاف اور امت کا ان اختلافات کو مثبت اندازمیں لینے کا عمل اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس اختلاف سے نہ صرف اسلامی علوم و معارف میں خاطر خواہ اضافہ ہوا بلکہ فکر و نظر کے دریچے اس طرح وا ہوئے کہ تحقیق کا نہ تھمنے والا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا ۔
دعوتی منھاج کا معاملہ اس سے برعکس نہیں ہے۔ اس میں بھی ہمارے اسلاف نے اپنی اپنی بصیرت کے مطابق طریقے وضع فرمائے۔دعوت الی الخیر تو نص سے ثابت ہے کس طرح، کیسے وغیرہ امور کو داعی کی صواب دید پر چھوڑ دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ سنوسی تحریک، اخوان المسلمون، جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی جیسی دعوتی تحریکیں منہاج میں تو مختلف نظر آرہی ہیں لیکن اپنا مقصد سب دعوت الی الخیر اور ما جآء بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے عالم میں زندہ کرنا بیان کر رہی ہیں۔ اس تفصیل سے یہ بات عیاں ہوئی کہ خارجی اعتبار سے دعوتی منھاج میں اختلاف ہو سکتا ہے۔
اکثرایسا ہوا ہے کہ ایک ہی دعوتی منہج یا ذہن پر عمل کرنے والے احباب د اخلی اعتبار سے فکری و نظری اختلاف کی بنیاد پر دو حصوں میں بٹ گئے تاہم وہ تقسیم فکری اور انتظامی نوعیت کی ثابت ہوچکی ہے۔ جیسے اخوان کے اکابرین میں کچھ احباب اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاست میں قدم رکھنا اخوان کا قبل از وقت فیصلہ تھا۔ اسی طرح جماعت اسلامی ہند جماعت اسلامی پاکستان سے منہج دعوت میں یکسر مختلف ہے ۔جماعت اسلامی کشمیر میں دو فکریں ہیں، ایک سیاست کی قائل ہے جبکہ دوسری عدمِ سیاست کے حق میں بات کرتی ہے ۔ بریلوی دعوتی فکر میں بھی دو فکریں ہیں ایک فکری اعتبار سے مسائل مختلفہ میں شدید ہے اور ان کی دعوت اپنا نصب العین بتاتی ہے جبکہ دوسری فکر تحریک منہاج ہے ۔اس کا دعوتی منہج معتدل ہے ۔ دیوبند میں بھی دو طرح کے مزاج رکھنے والے لوگ ہیں ایک دیوبند کو مسلک سمجھتے ہیں اور فکری اعتبار سے دیوبند کی تحقیق سے اختلاف رکھنے والوں کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے لوگ فکر وسعت کے حامل ہیں وہ مسائل مختلفہ کو اختلافی نوعیت کے سمجھتے ہیں اور ان میں اختلاف رکھنے والوں کو اپنا حریف نہیں سمجھتے ۔
اسی طرح بر صغیر کی ایک بڑی دعوتی جماعت بھی اختلاف کی شکار ہو گئی ۔ یہ اختلاف بھی بقول ایک بزرگ کے ، جنہوں نے اپنی ساری عمر تبلیغ ہی میں گزار دی ، “انتظامی زیادہ اور کلامی کم ہے ” ۔ یہ تحریک حضرت مولانا الیاس رحمہ اللہ نے ہندستان میں مسلمانوں کی دینی ابتری کو دیکھ کر شروع کی اور ان کے اخلاص کے بدولت پورے عالم میں بہت ہی کم وقت میں مقبول ہوئی۔ حضرت مولانا الیاس رحمہ اللہ کے بعد اس کے امیر ان کے فرزند مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ ہوئے۔ ان کے بعد کچھ اندرونی اختلاف رائے کے ساتھ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب پر امارت کی ذمہ داری ڈالی گئی ۔انعام الحسن صاحب نے اس امر کواپنی وفات کے بعد کسی اھل کو سونپنے کے لیے ایک شوری تشکیل دی ۔ تاہم وہ مجلس مشاورت کسی ایک امیر کو نامزد کرنے میں ناکام ہوئی جس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ۔جبکہ حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ نے مولانا انعام الحسن رحمہ االلہ کی وفات کے بعد ہی یہ مشورہ اربابِ شوریٰ کو دیا تھا کہ “اگر نظام الدین سے کوئی امیر نہ ملے تو راستے میں سے کسی کو لے آئیں اور اس کو امارت کی ذمہ داری سونپ دیں “یہ اصل میں اس امر پر تاکید تھی کہ پورے عالم میں ایک امیر کے تحت اس کام کو چلانا مطلوب ہے۔ بہر حال حضرت مولانا انعام الحسن صاحب کی وفا ت کے بعد یہ کام بالفعل تین امیروں کے تحت چلتا رہا ۔ہندوستان میں مولانا زبیر الحسن (فرزند مولانا انعام الحسن حضرت جی سوم) مولانا سعد صاحب (فرزند مولانا ہارون ابن یوسف کاندھلوی یعنی مولانا الیاس رحمہ اللہ کے حفید )اور پاکستان میں بھائی عبدالوھاب صاحب ۔ ان ذمہ داروں کے تحت کام پھر بھی کسی حد تک خارجی انتشار کے بغیر ہو رہا تھا ۔ لیکن مولانا زبیر الحسن کاندھلوی اور بھائی عبد الوھاب رحمھما اللہ کی وفات کے بعد داخلی اختلاف نے خارجی رخ اختیار کیا ۔اس اختلاف کو ہرچند کلامی اختلاف بیان کیا جا رہا ہے تاہم اسے محض کلامی نوعیت کا سمجھنا بھی بڑی ناانصافی ہوگی ۔کیونکہ راقم نے، جہاں تک ممکن ہو سکا ، اس معاملے کو سمجھنے کے لیے علی گڈھ، دہلی اور کشمیر کے مختلف دعوتی اور غیر دعوتی اہل حل و عقد احباب سے گفت و شنید کی، بالآخر، بحیثیت ایک غیر جانبدار تجزیہ کار کے اس نتیجے پر پہنچا کہ اس معاملے کو صرف اور صرف مولانا سعد صاحب کی علمی لغزشوں کا ہی نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس کے ذمہ دار کچھ انتظامی امور بھی ہیں ۔ جہاں تک مولانا سعد صاحب کی تقریری لغزشوں کا تعلق ہے، ان کا ایک داعی سے سرزد ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں – تبلیغی میدان میں مبلغین سے بیانی لغزشیں ہوتی رہی ہیں ۔ ان کوتاہیوں کو ہمارے علماء اصلاح کی کوششوں کے ساتھ نظر انداز کرتے رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا الیاس ، مولانا محمد یوسف اور مولانا انعام الحسن، مولانا عمر پالنپوری، مولانا طارق جمیل، بھائی عبد الوہاب اور دیگر اکابرین دعوت کے بیانوں کو ہمارے علماء نے نہ تنقیدی گوشوں سے سنا اور نہ ہی دیکھا۔ ہاں کسی بات پر اپنے تحفظات بیان کیے اور کبھی اس میں سختی بھی کی لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مرکز نظام الدین والے اپنے بیانات کو تنقیدی زاویے سے نہیں دیکھتے تھے ؟ نہیں ۔ وہاں اکابرین کے بیانات میں سے ایسی عبارتوں کو قلمبند کرتے وقت نکالا جاتا تھا جو کسی بھی طرح مزاج دعوت اور معیار شریعت کے خلاف ہوتی تھیں ۔یہ سلسلہ مولانا انعام الحسن صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ کے زمانے تک معمول بہ رہا ۔ چونکہ اب بیانات ڈیجیٹل موڈ کے ذریعے سے وائرل ہوتے ہیں لہذا ان چیزوں کو حذف کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بن چکا ہے ۔ لہذا اس امر پر مرکز نظام الدین کے احباب کو کافی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ۔ مولانا سعد صاحب کے بیانات کو کتابی شکل میں ڈالنے سے پہلےسنجیدگی سے دیکھنا چاہیے اوران جملوں کو حذف کرنا ضروری سمجھیں جو امت کی اجماعی تحقیق کے بر عکس ہوں ۔ اگر مسئلہ کلامی نوعیت کا ہی ہے تو امت کے اکابر علماء مولانا سے رابطہ کریں اور ان کو اس صورت حال سے آگاہ کریں اور ان سے کہیں کہ یہ کام بڑے خیر کا کام ہے لہذا اپنے بیانات میں کوئی ایسی بات نہ کہیں جس سے اس عظیم کام کو نقصان پہنچے کا اندیشہ ہو ۔
جہاں تک شوری اور امارت کا معاملہ ہے تو اس کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ مولانا سعد صاحب ہی کو اس شرط کے ساتھ امیر مقرر کیا جائے کہ ان کی امارت کے ساتھ ہی ایک فعال عالمی شوری تشکیل دی جائے جو عالمی سطح پر انتظامی اعتبار سے کام کی نگرانی کرے نیز تمام انتظامی فیصلوں میں امیر اس شوری کی اکثریتی رائے کا پابند ہو- چونکہ دعوت و تبلیغ کا کام پہلے ہی سے ایک امیر کے تحت چلتا آیا ہے لہذا اس محنت کے امارتی نظم کو تبدیل کر کے بغیر مستقل امیر کے شورائی نظم میں ڈالنا اپنے اندر بہت سارے مفاسد لے کر آئے گا ۔ لہذا شوری اور امیر کو جمع کر کے اس امیر والے معاملے کو احسن طریقے سے حل کیا جاسکتا ہے۔ تاہم طرفین پر لازم ہے کہ اس معاملے کو اس نہج پر نبھانے میں وسعت قلبی کا مظاہرہ کریں –
اس وقت ہر دو جانب تبلیغی احباب کی اس طرح ذہن سازی کی جارہی ہے کہ وہ لوگ جو کبھی امت پنے کی بات کرتے تھے، آج ایک دوسرے کو اپنا حریف سمجھتے ہیں ۔ ان میں ایک دوسرے کے تئیں نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں ۔ مثلا یہ کہا جارہا ہے کہ “سعد صاحب سے وابستہ لوگ سعدیانی ہیں ۔ جیسے قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کے پیچھے چل کر گمراہ ہوئے ،اسی طرح سعد صاحب کے پیچھے چلنے والے لوگ سعدیانی بھی گمراہ ہیں ۔سعد صاحب کو امیر ماننے والے تبلیغیوں کو لفظ “قادیانی”کے وزن پر “سعدیانی” کہنا کسی بھی طرح انصاف نہیں ہے ۔ سعد صاحب کی علمی لغزشیں ابھی حد کفر تک نہیں پہنچی ہیں لہذا ان کو کافروں کے ساتھ تشبیہ دینا ہرگز ایک سچے پکے مسلمان داعی کے لیے جائز نہیں ہے ۔ ایسے احباب خواہ وہ کتنے ہی قربانی والے ہوں مخلص داعی نہیں ہوسکتے ۔ داعی کا کام جوڑنا ہے نہ کہ توڑنا ۔ یہاں ازالہ منکر کا اصول کار فرما ہونا چاہیے نہ کہ اظہار منکر کا ۔ یہ سب اصول وصل کے ترجمان بنیں نہ کہ فصل کے –
تو برائے وصل کردن آمدی
نہ برائے فصل کردن آمدی
اسی طرح یہ کہا جارہا ہے کہ جو امیر سے الگ ہوا وہ گمراہ اور باغی ہے۔ یاد رہے یہ ایک محنت ہے اگر کوئی مروجہ طریقے سے دین کی محنت نہیں بھی کرتا ہے یا اس سے اتفاق نہیں کرتا ہے تو ایسے شخص کو کسی بھی طرح مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ چہ جائیکہ اگر کوئی یہی محنت شورائی نظم کے تحت کرتا ہے اُسے ہم گمراہ قرار دیں ، العیاذ باللہ ۔ لہذا طرفین کے احباب کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں تدبر سے کام لیں ، عالی ظرفی اور بلند حوصلگی کا مظاہرہ کریں۔ مولانا عمر صاحب پالنپوری رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ دیوبندیوں کو سنتی کہو نہ کہ وہابی ، بریلویوں کو محبتی کہو نہ بدعتی اور خود کو تبلیغی کہو ۔ جب دوسرے لوگوں کی قلبی تالیف کا اتنا خیال دعوتی اکابرین کرتے تھے تو باہمی شکر رنجی پر گمراہی کے فتوے صادر فرمانا اور اپنے اپنے حلقوں میں اس کا پرچار کرنا کہاں کا تبلیغ ہے ؟
ببیں تفاوت رہ از کجا است تا بہ کجا
شورائی اور امارتی تبلیغ کا تنظیمی نظام ان کے اپنے اصولوں کے بر عکس دکھ رہا ہے ۔ امارت کے تحت چلنے والے ریاستی اور ضلعی مراکز میں شورائیں بغیر مستقل امیر کے کام چلا رہی ہیں جبکہ شوری والے مراکز میں مستقل امیروں کے تحت کام چل رہا ہے ۔ اگر مولنا سعد صاحب امارت کے قائل ہیں تو ان کو چاہیے کہ ہر مرکز کے تحت آنے والے تبلیغیوں کا مستقل اور معروف امیر طے کریں۔ اسی طرح اگر شوری والے احباب شوری کے قائل ہیں تو ان کو چاہیے کہ اپنے مراکز میں معروف شورائیں تشکیل دیں پھر ادل بدل کر امیر کا تعین کیا جائے ۔ اس معاملے میں طرفین کےذمہ دار جس طرح مصالح سے کام لے رہے ہیں یہ اس چیز پر دال ہے کہ یہ اصولی اختلاف نہیں ہے بلکہ انتظامی یاانتفاعی نوعیت کا ہے ۔ اس تضاد کو بھی اسی طرح ختم کیا جاسکتا ہے کہ شوری و امارت کو جمع کیا جائے۔
جہاں تک دیوبند کے فتاوی جن امیں انہوں نے مولانا سعد صاحب کی تقریری اور فکری لغزشوں کا اظہار کیا ہے ان کے متن سے یہ کہیں مترشح نہیں ہوتا ہے کہ وہ مولانا سعد صاحب کی امارت کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ انہوں نے امارت اور شوری والے معاملے میں کوئی کلام نہیں کیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی اس کو انتظامی معاملہ سمجھتے ہیں ۔اگر چہ مولانا سعد صاحب کی جانب سے رجوع نامہ بھی دیوبند کو بھیجا گیا تھا تاہم انہوں نے اس کو ناکافی سمجھ کر مزید وضاحت اور معروف طریقے سے دوبارہ وضاحت کرنے کی خواہسش کا اظہار کیا ہے۔ اگر مولانا سعد صاحب علماء دیوبند کی خواہش کے مطابق واضح اور معروف طریقے سے دوسرا رجوع نامہ بھی دیوبند ارسال فرمائیں تو اس سے ان کے قد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ یہ سب اس عظیم محنت کے حق میں مفید ثابت ہوگا ۔
اہلیانِ شوری کو چاہیے کہ وہ مولانا سعد صاحب پر شفقت کا ہاتھ رکھیں کیونکہ اہلیان شوری کے ذمہ دار حضرت دیولا صاحب اور حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب دونوں مولانا کے استاد اور بڑے رہ چکے ہیں لہذا اگر اِن کو اُن کی سرپرستی میں امارت کے امور انجام دینے کا موقع ملتا ہے تو آگے چل کر مولنا سعد صاحب کو ان کی توجہات سےکافی فائدہ ہوگا ۔
مولانا سعد صاحب کو بھی چاہیے کہ سب کو لے کر چلنے کا حوصلہ پیدا کریں کیونکہ اللہ تعالی نے ان کے بڑوں میں ایسا ظرف رکھا تھا کہ وہ کسی کو اپنے سے دور نہیں کرتے تھے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی ہم سے دوری کا نتیجہ کسی طرح بھی اس محنت کے حق میں مفید نہیں ہو سکتی – ایک مرتبہ ایک شخص کو مرکز میں کوئی بات اپنی توقع کے خلاف معلوم ہوئی اور وہ مرکز سے چل دیا ، مولانا تب تک اطمینان سے نہ بیٹھے جب تک کہ نہ اس کو واپس مرکز میں نہ لایا ۔ حدیث نبوی صل اللہ علیہ وسلم “من تواضع لله رفعه الله ” اسی قسم کے رویے کی طرف مشیر ہے ۔
یہ میری چند گزارشات ہیں جو اس معاملے کو سمجھنے کے بعد سامنے رکھیں، اہلِ علم حضرات سے رابطہ کرکے مزید مشورے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
اللہ کرے اس عظیم محنت کو انجام دینے والے احباب پھر ایک بار ایک ہی نظم کے تحت محبت و اخلاص اور اکرام و احترام کے ساتھ جمع ہو جائیں – آمین
مراد ما نصیحت بود و گفتیم
حوالت با خدا کردیم و رفتیم