میرے آئیڈیل استاد: محمد عارف اقبال

عائشہ پروین
9th کلاس

پلس ٹو اپگریڈیڈ ہائی اسکول، ٹھکرنیا، مریا، دربھنگہ

اللہ تعالیٰ کاشکر ہے کہ اس نے ہمیں ماں باپ کے بعد سب سے افضل اور محبت والا پاک رشتہ استاد کا دیا ہے۔ ماں باپ کے بعد اگر کسی شخص کا درجہ بڑا ہے تو وہ استاد ہیں۔ بچے والدین کے ذریعہ عرش سے فرش پر آتے ہیں مگر ایک استاد ہی ہوتا ہے جو بچے کو فرش سے عرش کی بلندی پر لے جاتا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا معلم حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا ہے جن کی پوری زندگی مثالی ہے۔ جنہوں نے دنیا کو زندگی جینے کا ایک طریقہ اور سلیقہ دیا، آپسی بھائی چارہ اور محبت کا درس دیا، ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قابل تقلید ہے۔

استاد ہمارے معاشرے میں سب سے باعزت اور قابل احترام نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔راستے سے گزرنے والا ہر شخص انہیں سلام پیش کرتا ہے،ایک اچھا معاشرہ بنانے میں استاد کا کردار سب سے اہم مانا جاتا ہے۔ رابٹ فراسٹ نے کیا خوب کہا تھا کہ ”میں پڑھاتا نہیں جگاتا ہوں“i am not a teacher but an awakener۔ عارف اقبال سر ہم لوگوں کے لیے رابٹ فراسٹ ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے بہت کم دنوں میں ہمارے اسکول میں غفلت کی نیند میں سو رہے طلبا کو پڑھنے کے لیے جگادیا ہے۔میں اس اسکول میں کلاس 7th سے پڑھ رہی ہوں، پہلے اور اب کے اسکول کے ماحول کو دیکھتی ہوں تو ایک بہت بڑا بدلاؤ محسوس کرتی ہوں، پہلے اساتذہ کی کمی تھی تو پڑھائی بھی بہت اچھی نہیں ہوتی تھی، مگر جب سے بی پی ایس سی کے ذریعہ نئے اساتذہ آئے ہیں اسکول کے ہر شعبہ میں تبدیلی آئی ہے۔ سارے اساتذہ بہتر تعلیم دینے کے لیے فکر مند رہتے ہیں، مگر ان اساتذہ میں عارف اقبال سر کی سرگرمی کچھ زیادہ ہی ہم دیکھتے ہیں۔ وہ صرف کلاس ہی نہیں لیتے بلکہ طلبا کو تعلیم کے ساتھ ان کی تربیتی نقطہ نظر سے بھی ہمیشہ فکرمند نظر آتے ہیں اور کلاس میں ہمیشہ اچھی نصیحت کرتے ہیں۔ اس تعلق سے نبیوں کے، صحابہ کرام کے، بزرگوں کے اور بڑے لوگوں کے سبق آموز واقعات بھی سناتے ہیں، کامیاب انسانوں کی مثالیں دے کر ہمیں بھی ایسی ہی کامیابی کے لئے راغب کرتے ہیں۔عارف اقبال سرطلبا کے بنجر ذہن پر کدال چلا کر اسے زرخیز کیا ہے، کدال کی چوٹ کبھی تیز تو کبھی آہستہ لگی ہے، کلاس میں گھنٹوں گھنٹوں کھڑا رہ کر کرسی پر بیٹھنے اور پانی پینے کے بجائے ہمارے لیے پسینہ بہایا ہے، ہم طالبہ کی ذہن سازی کی ہے، ہمیں تعلیم کی اہمیت، اساتذہ کی قدرو قیمت، بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے خواب اور کامیاب ہونے کے منتر بتائے ہیں، ہمیں ہمت اور حوصلہ دیا ہے۔ ہمارے اسکول میں استاد اس سے پہلے بھی آئے اور ابھی بھی ہیں مگر ان میں عارف اقبال سر اپنی کئی خوبیوں کی وجہ سے دوسرے اساتذہ سے بالکل الگ ہیں۔ مجھے لگتا ہے جس طرح سے عارف اقبال سرکلاس میں ہم لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں،اپنی باتوں سے ہم لوگوں کے ذہن و دماغ پر جو اثر چھوڑتے ہیں،ان کے خوبصورت الفاظ اور بات کہنے کاجو طریقہ ہوتا ہے وہ بہت ہی خوبصورت ہے۔وہ ہم لوگوں کو کلاس میں اپنی بات سلیقے سے کہنے کی ہدایت کرتے ہوئے اکثر یہ شعر سناتے ہیں:

کون سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے

یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے

عارف اقبال سر کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنی علمی صلاحیت کے ساتھ کبھی سخت تو کبھی نرم لہجے، اپنے مشفقانہ برتاؤ اور ہمدرددانہ سلوک سے اپنے شاگردوں کے دلوں میں اپنی عزت اور خاص مقام بنائے ہوئے ہیں۔ سر جب بھی ہمارے کلاس میں آتے ہیں تو انہیں دیکھ کر ہم لوگوں کے چہروں پر خوشی اور غم دونوں لہریں دوڑ جاتی ہیں، جن بچوں نے ان کا ہوم ورک بنایا ہوا ہے ان کے چہروں پر خوشی نظر آتی ہے کہ آج انہیں شاباشی ملے گی، اچھے پرفارمنس پر کلاس میں ان کے لیے سر تالی بجوائیں گے، غم ان بچوں کے چہروں پر دکھائی دیتی ہے جنہوں نے ٹاسک یاد نہیں کیا ہے یا ہوم ورک نہیں بنایا ہے، ایسے طلبا کے لیے عارف سر سختی سے پیش آتے ہیں۔ عارف سر اپنے شاگردوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں بڑی دلچسپی اور محنت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسکول کے سبھی اساتذہ کے درمیان وہ قابل احترام سمجھے جاتے ہیں۔بعض دفعہ شرارتی بچے جب کسی اور اساتذہ کے کنٹرول میں نہیں آتے ہیں تو اخیر میں اساتذہ کو عارف سر کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے اور ان کے کھڑے ہوتے ہی سب کنٹرول ہو جاتا ہے۔ بچوں کے دلوں میں عارف سر کا خوف بھی ہے اور ان کی عزت بھی، ہم لوگ اس کی مثال آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔

  عارف اقبال سر کے پڑھانے اور سمجھانے کا انداز ایسا ہے کہ مشکل بات بھی آسان اور دلچسپ ہوجاتی ہے۔وہ ہمیں 9thکلاس میں اردو پڑھاتے ہیں۔ہم لوگ اب تک اردو برائے نام ہی پڑھ رہے تھے، دوسرے سبجیکٹ کے مقابلے اردو ہم لوگوں کا کافی کمزور تھا، اردو زبان اور اس کی باریکیوں سے واقف نہ تھے، ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ اردو ادب کے کتنے حصے ہیں، اردو ادب کے کون کون صنف ہیں، داستان، ناول، افسانہ، خطوط نگاری کیا ہے؟سوانح، خود نوشت، سفر نامہ، انشائیہ کس کی صنف ہے؟ اردو کے مشہور شاعر، مشہور افسانہ نگار، مشہور ناول نگار، مشہور نظم نگار، مشہور مرثیہ نگار، مشہور غزل گو، مشہور گیت کار کون کون ہیں،؟ مگر اب ہم ان لوگوں کے بارے میں اچھے سے جانتے ہیں، زبانی اردو لکھنے میں پریشانی ہوتی تھی، عارف سر نے کلاس میں تمام بچوں کو اپنا صحیح نام، والدین کا نام، گاؤں کانام، اسکول کا نام، لکھنا سکھایا، بیچ بیچ میں وہ اس کا ٹیسٹ بھی لیتے رہتے ہیں تاکہ ہم بھولیں نہیں، روزانہ اردو کتاب سے ایک صفحہ دیکھ کر لانے کی ہدایت دیتے ہیں اور بڑے پابندی سے اسے چیک بھی کرتے ہیں، پھر زبانی اردو بھی لکھواتے ہیں اور غلطی کی نشاندہی کر کے اسے کم سے کم دس مرتبہ مشق کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔اب ہم فرق محسوس کرتے ہیں کہ پہلے کے مقابلے اردو لکھنے پڑھنے میں ایک بدلاؤ آیا ہے۔عارف سر نے ہم لوگوں کو کئی اچھے شعر بھی یاد کرائے ہیں، مجھے پہلے شعر و شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر عارف سر کی وجہ سے مجھے بھی شعر کہنے کا شوق اور جذبہ پیدا ہو گیا ہے۔میرا دیکھ کر میرے دوستوں میں بھی شاعری یاد کرنے اور بولنے کی عادت ہوگئی ہے۔شکیل اعظمی کا ایک شعر ان کی زبانی ہم اکثر سنتے ہیں جو ہمیں بہت موٹیویٹ کرتا ہے، شعر یہ ہے:

پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے

زمین پہ بیٹھ کے کیا آسمان دیکھتا ہے

اور علامہ اقبال کا یہ شعر تو ان کی زبانی سنتے سنتے ہی ہم لوگوں نے یاد کر لیا:

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

شعر کہنے کے بعدعارف سر جس طرح سے بالکل آسان لفظوں میں اس کی تشریح کرتے ہیں، ہم لوگ اسے خوب غور سے اور چٹخارہ ا لیکرسنتے ہیں اور بڑ ا مزاہ آتا ہے۔عارف سر کا یہی انداز پڑھانے کا بھی ہے، وہ ہمیں جب کوئی سبق پڑھا رہے ہوتے ہیں تو مشکل سے مشکل باتوں کو یا کوئی مشکل الفاظ کو اس طرح مثال دے کر آسان بنا دیتے ہیں کہ فوراََ سمجھ میں آ جاتا ہے، اور وہ بات ہمارے ذہن میں نقش کر جاتا ہے۔ سر کے پڑھانے کی ایک خاص با ت اور ہے کہ وہ جب کسی مضمون کو پڑھا رہے ہوتے ہیں تو درمیان میں کوئی اہم بات آتی ہے تو اس سے جڑی ہوئی اہم باتیں بھی ہم لوگوں کو بتاتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں جس سے ہمارے علم میں گہرائی اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔

ہمارا اسکول اب پہلے والا اسکول نہیں رہا، اب ہم اپنے اسکول کو دیکھتے ہیں تو دل بہت خوش ہوتا ہے،چاروں طرف بچے دکھائی دیتے ہیں،سارے اساتذہ کلاس میں پابندی سے پڑھاتے ہوئے نظر آتے ہیں، لنچ کی گھنٹی میں اسکول کا میدان بچوں سے بھرا ہوتا ہے، ہم کئی طرح کے کھیل کھیلتے ہیں، لنچ کے بعد گھنٹی لگتے ہی پھر دوبارہ تازہ دم ہوکر پڑھائی شروع کر دیتے ہیں، یہ سب چیزیں پہلے اسکول میں نہیں تھی، لنچ کے بعد بچے بھاگ جاتے تھے مگر عارف سر نے بھاگنے والے والوں کی ایسی نگرانی کی اب اسکول کے ختم ہونے تک کلاس میں بچے جمے رہتے ہیں۔

عارف اقبال سر کی وجہ سے ہمیں اسکول سے باہر مختلف طرح کے تعلیمی کمپٹیشن میں جانے کا موقع ملا۔ان کی نگرانی میں کئی مقابلوں میں ہم لوگوں نے اچھا پرفارمنس دیا جس سے ہمارا حوصلہ بڑھا، عارف سر اسکول میں استاد بننے سے پہلے ایک اچھے صحافی بھی رہے ہیں،ان کے بڑے اور اچھے لوگوں سے تعلقات اور پہچان ہے،وہ ہم لوگوں کو ان سے ملاقات کراتے تاکہ ہم بھی ان جیسا بننے کی کوشش کریں، ابھی کچھ دنوں پہلے دربھنگہ شہر میں منعقد ایک پروگرام میں عارف سر نے BPSC کے چیئرمین امتیاز کریمی صاحب اور قومی تنظیم اخبار کے ایڈیٹر اشرف فرید صاحب سے ملاقات کرائی تھی، انہیں جب معلوم ہوا کہ ہم لوگ سر کے اسٹوڈینٹ ہیں تو انہوں نے ہم لوگوں کو خوب دعائیں دی اور محنت سے پڑھنے کی تلقین کی۔ اسی طرح عارف سر اسکول میں مختلف موقعوں پر کلچرل پرواگرام بھی کراتے ہیں، اس طرح سے ہم پڑھائی کے ساتھ دیگر سرگرمیوں میں بھی خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ہمارے اسکول کا اب نقشہ ہی بدل گیا ہے۔

مجھے ایسا لگتا ہے ہمارا اسکول اب عارف اقبال سرکے دل میں بس گیا ہے،وہ اسکول سے، یہاں کی آب و ہوا سے، یہاں کی در و دیوار سے، یہاں پڑھنے والوں بچوں سے دلی محبت کرتے ہیں۔ وہ اکثر ہمیں کلاس میں مستقل مزاجی کا درس دیتے ہیں، اپنے اساتذہ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ان میں یہ مستقل مزاجی والی خوبی ان کے استادوں سے آئی ہے، ان کے استاد کہتے تھے کہ جس کام لگو اس پر جم جاؤ، آنے والی پریشانی کو برداشت کرو، خود کو اس ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کرو، اس کا فائدہ مستقبل میں ہوتا ہے۔ عارف سر ہمارے یہاں ہائی اسکول میں استاد ہیں، مگر بی پی ایس سی TRE 2 امتحان میں انہیں پلس ٹو کے امتحان میں انہیں کامیابی مل گئی تھی، مگر انہوں نے ہمارے اسکول کو ہی ترجیح دی اور یہاں کی تعلیمی ماحول کو ٹھیک کرنے میں لگے رہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی جب ٹیچر ٹرانسفر کا معاملہ آیا تو ہمارے اسکول سے تقریبا تمام ہی اساتذہ نے اپنے گھر کے قریب جانے کے لیے ٹرانسفر کا فارم بھر دیا۔ عارف سر کے لیے بھی یہ آپشن تھا، انہوں نے جب اس کی اطلاع ہم لوگوں کو کلاس میں دی کہ وہ ٹرانسفر فارم بھرنے کی سوچ رہے ہیں تو اس خبر سے کلاس کے تمام ہی بچوں کے درمیان ایک سناٹا چھا گیا تھا، میں اور ہماری کئی دوست اداس ہوگئے تھے، ہم لوگوں نے آپس میں مشورہ کر کے عارف سر سے گزارش کی کہ آپ فارم نہ بھرے، اگر آپ چلے گئے تو اردو پڑھائی کا کیا حال ہوگا،یہاں کا تعلیمی ماحول پھر بگڑنے لگے گا، یہ سبھی بچے بخوبی اس بات کو جانتے ہیں کہ عارف سر اگر چلے گئے تو ان جیسا استاد ہمارے اسکول کودوبارہ نہیں ملے گا جو ہمارے مستقبل کے لیے، اسکول کی بہتری کے لیے اور اردو پڑھانے کے لیے فکرمند رہتے ہوں۔ ان کی سختی میں بھی دراصل ہم لوگوں کی کامیابی ہے، ان کے بتائے ہوئے راستے ہمیں منزل کی طرف لے جانے والا ہے، ان کی محبت، ان کی شفقت اور ان کی ڈانٹ ہمارے لیے ایک نعمت ہے، جس کی قدر ہم سبھی لوگ دل سے کرتے ہیں۔ مجھے جب معلوم ہوا کہ صرف ہم ہی لوگ نہیں بلکہ 10thکلاس اور 11thکلاس کے اردوپڑھنے والے ہمارے سینئر بھی عارف اقبال سر کو جانے نہیں دینا چاہتے اور ان لوگوں نے بھی سر سے نہ جانے کی درخواست کی ہے، تو ہم لوگوں کا بھی حوصلہ بڑھا، ایک دن عارف سر سے ہم لوگوں نے کہا کہ آپ نے جو ٹرانسفر بھرنے کے لیے درخواست لکھی ہے وہ ہمیں دکھائے، پھر درخواست ملتے ہی ہم لوگوں نے اسے چھپا دیا۔ آخرکار عارف اقبال سر کو ہم بچوں کی محبت اور گزارش کے آگے جھکنا پڑا اور انہوں نے ٹرانسفر فارم بھرنے کا اردادہ کینسل کر دیا۔

اخیر میں یہ ضرور لکھنا چاہتی ہوں کہ جو استاد اپنی ذمہ داری کو اچھے طریقے سے پورا کرتے ہیں، ان کے شاگرد آخری سانس تک ان کے احسان مند رہتے ہیں اور انہیں یاد کرتے ہیں، ہم خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں اور یہ فخرسے کہہ سکتے ہیں کہ عارف اقبال سر کے ہم لوگ شاگرد ہیں جو ہمارے لیے صرف ایک استاد ہی نہیں بلکہ ایک اچھے گائیڈر بھی ہیں، وہ ہمیں صرف کتابی علم نہیں دیتے بلکہ اچھی زندگی جینے کے اصول بھی بتاتے ہیں، وہ ہمارے حوصلوں کو پروان چڑھاتے ہیں،اس لیے وہ ہم تمام طالب علموں کے لیے اور بالخصوص میرے لیے ایک آئیڈیل استاد ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ رب کریم عارف اقبال سر کوسلامت رکھے، ان کی عمر میں برکت عطا کرے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ ان سے استفادہ کر سکیں۔

شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخ

استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

٭٭٭

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com