حضرت مولانا علامہ قمر الدین گورکھپوریؒ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ)

دار العلوم دیو بند کے شیخ ثانی، سابق ناظم تعلیمات وناظم دار الاقامہ استاذ الاساتذہ، تصوف وروحانیت میں ممتاز، تواضع انکساری اور تستعلیقی وضع قطع کے مظہر اتم، حضرت مولانا علامہ محمد قمر الدین گورکھپوری ؒ کا 22دسمبر 2024ء مطابق 20جمادی الاخری 1446ھ بروز اتوار صبح صادق کے بعد دیوبند میں انتقال ہو گیا، جنازہ اسی دن بعد نماز ظہر احاطہ مولسری دار العلوم دیو بند میں صدر المدرسین مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم نے پڑھائی اور مزار قاسمی میں مولانا نور عالم خلیل امینی کی قبر سے متصل تدفین عمل میں آئی، دیوبند اور اس کے اطراف کے مدارس کے اساتذہ، طلبہ اور عام مسلمانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی، دار العلوم کے اساتذہ اور طلبہ اس پر مستزاد، مجمع اس قدر تھا کہ ہر طرف سر ہی سر دکھائی دے رہا تھا، مولانا لاولد تھے، اپنے بھائی کے لڑکا مفتی معراج کو متبنی بنایا تھا، جو شاہی مراد آباد میں استاذ ہیں، علالت کے زمانہ میں مسلسل دیو بند میں مولانا کی خدمت میں لگے رہے، امارت شرعیہ میں تدفین سے قبل ہی تعزیتی نشست ہوئی، جس میں امارت شرعیہ کے ذمہ داروں اور کارکنوں نے ان کی حیات و خدمات پر گفتگو کی اور دعا مغفرت فرمائی۔

مولانا قمر الدین بن بشیر الدین بن محمد حسین کی ولادت 2فروری 1938ء کو بڑہل گنج ضلع گورکھپور یوپی میں ہوئی، ابتدائی تعلیم دار العلوم مؤ اور احیاء العلوم مبارک پور، ضلع اعظم گڈھ میں حاصل کرنے کے بعد 1954ء میں دار العلوم دیوبند میں داخل ہوئے۔ 1957ء مطابق 1377ھ میں یہیں سے سند فراغ حاصل کیا، انہوں نے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا فخر الدین احمد مراد آبادی سے بخاری شریف کا درس لیا، علامہ ابراہیم بلیاوی ؒ سے صحیح مسلم و جامع ترمذی، مولانا بشیر احمد خان ؒ بلند شہری سے سنن نسائی، مولانا فخر الحسن مراد آبادی سے سنن ابو داؤد، مولانا عبد الاحد دیوبندیؒ سے شمائل ترمذی، مولانا سید حسن دیوبندی سے شرح معانی الآثار، مولانا ظہور احمد دیوبندی سے سنن ابن ماجہ ومؤطا امام مالک اور مولانا جلیل احمد کیرانوی سے مؤطا امام محمد سبقاً سبقاً پڑھا، یہ وہ دور تھا جب باقاعدہ درجہ بندی دار العلوم میں نہیں ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے دورہ حدیث کے سال اور اس کے مزید ایک سال مختلف فنون کی کتابیں بھی پڑھیں، روحانی اصلاح کے لیے انہوں نے پہلے حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب الٰہ آبادی اور ان کے انتقال کے بعد حضرت مولانا ابرار الحق حقی اجل خلیفہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمہم اللہ) سے بیعت و ارشاد کا تعلق قائم کیا اور ان سے ہی اجازت بیعت پائی۔

 تدریسی زندگی کا آغاز حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی ؒ کے مشورہ سے مدرسہ عبد الرب دہلی سے کیا، آٹھ سال تک یہاں تدریس کے فرائض انجام دیے، یہاں بخاری شریف کا درس آپ سے متعلق رہا، دوران قیام یہاں کی جامع مسجد میں تفسیر قرآن کریم بیان کرنے کا التزام و اہتمام رہا 1386ھ مطابق 1966ء میں بحیثیت استاذ دار العلوم دیوبند میں تقرری ہوئی، حسن کارکردگی کی بنیاد پر ترقی کرتے ہوئے 1399ھ مطابق 1979ء میں درجہ علیا تک پہونچے، مختلف سالوں میں انہوں نے بیضاوی شریف، صحیح مسلم، سنن نسائی کا درس دیا، شیخ ثانی مولانا عبد الحق اعظمی ؒ کے وصال کے بعد بخاری شریف جلد ثانی کا درس ان سے متعلق رہا، تدریس کے علاوہ، وہ دو مرتبہ ناظم دار الاقامہ بنائے گئے، پہلی بار 1390ھ مطابق 1970اور دوسری بار 1394سے 1401ھ مطابق 1974 تا 1980ء وہ 1410ھ تا 1416ھ مطابق 1989 تا 1995ناظم مجلس تعلیمی بھی رہے، انہوں نے پوری زندگی رجال سازی پر توجہ دیا، اس لیے ان کی با قاعدہ کوئی تصنیف نہیں پائی جاتی، ایک مجموعہ ”جواہرات قمر“ کے نام سے موجود ہے، جس میں جامع مسجد ہاشم امبور تامل ناڈو میں کئے گیے ان کے خطاب کو شائع کیا گیا ہے۔ حضرت شیخ زکریاؒ کے وصال کے بعد انہوں نے مسلسلات کا درس بھی دار العلوم دیو بند میں شروع کیا، جس میں کثیر تعداد میں دورہ حدیث کے طلبہ اور تعداد میں قرب و جوار کے علماء بھی شریک ہوا کر تے تھے، مسلسلات کا یہ درس وہ سال میں ایک بار دیا کرتے تھے۔انہوں نے خود حضرت شیخ زکریا ؒ سے مسلسلات کا درس لیا تھا، اور انہیں کے واسطہ سے اپنی سند مستفیدین کو دیا کرتے تھے۔

حضرت مولانا قمر الدین ؒ سے میں نے بیضاوی شریف پڑھی تھی، ان کا درس مقبول تھا، وہ انتہائی متواضع اور وضع قطع کے اعتبار سے اتہائی نستعلیق انسان تھے، صبح وشام ٹہلنے کا معمول تھا جو پوری زندگی باقی رہا، انہوں نے صد سالہ کے بعد واقع ہونے والے ”قضیہ نامرضیہ“ سے خود کو الگ رکھا، اپنے سے قریب طلبہ کو بھی اس سے دور رہنے کی تلقین کرتے رہے، اور جب دا رالعلوم مجلس شوریٰ کی نگرانی میں کھلا تو دار العلوم درس کے لیے واپس آگیے، اس دور ا بتلاء و آزمائش میں خود کو بچا کر رکھنا معمولی واقعہ نہیں ہے۔

اللہ رب العزت نے عمر اچھی عطا فرمائی، نوے سال کی عمر پائی، ہزاروں کی تعداد میں شاگرد چھوڑا، جو ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ اللہ رب العزت حضرت کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com