نئی دہلی : (پریس ریلیز) انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام آئی او ایس کانفرنس ہال میں ڈاکٹر تابش مہدی کی وفات پر ایک تعزیتی جلسے کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی. جلسے کی صدارت بزرگ عالم دین مولانا عبداللہ طارق دہلوی نے کی۔
افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے معروف صحافی انجم نعیم نے کہا کہ ڈاکٹر تابش مہدی کی وفات سے علمی و ادبی حلقوں میں ایک بڑا حلقہ پیدا ہوگیا ہے. انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز سے کو بھی ان کی خدمات حاصل رہی ہیں. انسٹی ٹیوٹ میں اپنے کرم فرماؤں کو یاد رکھنے کی روایت رہی ہے. اس لیے یہ تعزیتی و دعائیہ جلسہ منعقد کیا جارہا ہے۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ممتاز صاحبِ قلم پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے کہا کہ اردو زبان و بیان، املا اور روز مرہ پر جیسی قدرت ڈاکٹر تابش مہدی کو تھی، ایسی قدرت کم ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے. اس حوالے سے اُن کی رحلت نے ایک بڑا خلا پیدا کردیا ہے. مجھے اب اس مہارت کا حامل کوئی شخص نظر نہیں آتا. مجھے سفر و حضر میں بھی اُن کی رفاقت کا موقع ملا اور مختلف علمی کاموں میں شراکت کا بھی موقع ملا. میں نے ہمیشہ ان کو اعلیٰ کردار کا حامل پایا. وہ بہت اچھے ادیب اور بہت بڑے ناقد تھے. تحقیق و تصنیف کے میدان میں اُن کی خدمات بہت وقیع ہیں. وہ عشق رسول کی دولت سے بھی مالا مال تھے. اس کی شاہد عدل ان کا شعری سرمایہ ہے. اپنی مختلف الجہات شخصیت کی وجہ سے وہ تادیر یاد رکھے جائیں گے۔
ہندو تہذیب و تمدن کے ماہر عالم دین مولانا عبدالحمید نعمانی نے ڈاکٹر تابش مہدی کے ساتھ اپنے قدیم روابط کا ذکر کیا اور دیوبند کے زمانہء قیام میں ان کے ساتھ گزرے وقت کو یاد کیا. انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے رکن ہونے کے باوجود تابش مہدی صاحب کے علمائے دیوبند اور دوسرے صوفیاء و مشائخ سے بہت گہرے روابط تھے. ادب کے متعلق ڈاکٹر تابش مہدی کا نظریہ بہت واضح اور دو ٹوک تھا. وہ بحث و مباحثے میں نہیں پڑتے تھے. کوئی ان کی بات کاٹ دیتا تھا تو اس کو خندہ پیشانی سے سن لیتے تھے اور ضرورت ہوتی تھی تو فوراً اپنی بات سے رجوع کر لیتے تھے. اپنے شعری مجموعے “مشکِ غزالاں” پر انھوں نے جو مفصل مقدمہ لکھا تھا وہ بہت اہمیت کا حامل ہے. ادب کے متعلق ان کے نظریات کو موضوع گفتگو بنایا جانا چاہیے۔
انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کی نائب صدر پروفیسر حسینہ حاشیہ نے ڈاکٹر تابش مہدی کی وفات پر اپنے گہرے رنج کا اظہار کیا اور اُن کی زندگی کے کچھ حالات بیان کیے. انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر تابش مہدی کا آئی او ایس سے بھی گہرا رابطہ رہا. آئی او ایس کے بانی ڈاکٹر محمد منظور عالم صاحب سے بہت پرانا اور گہرا تعلق تھا. یہاں کے کئی بڑے علمی پروجیکٹ اُن کی رہنمائی میں پایہء تکمیل کو پہنچے. اُن کے بیٹے اور بیٹی کا بھی یہاں سے تعلق ہے. اس طرح اُن کی شروع کی گئی روایت آگے بڑھ رہی ہے۔
سینئر صحافی اے یو آصف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو شخصیات ہشت پہلو نگینے کی مانند ہوتی ہیں اُن کی زندگیوں اور خدمات کے کچھ گوشے لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں. میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر تابش مہدی کی محققانہ حیثیت بہت سے لوگوں کے سامنے نہیں آسکی. جب کہ اُن کی صرف ایک کتاب “اردو تنقید کا سفر” اُن کی محققانہ حیثیت کو تسلیم کرانے کے لیے کافی ہے. انھوں نے 55 کتابیں تصنیف کیں، 248 مقالات و مضامین لکھے اور 174 کتابوں کے دیباچے اور مقدمے تحریر کیے. ضرورت ہے کہ اُن کی زندگی کے ہر پہلو کا مبسوط انداز میں گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے۔
معروف صحافی قاسم سید نے کہا کہ ڈاکٹر تابش مہدی صاحب سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا. أَن کے میرے والد صاحب سے تعلق تھے اس لیے بھی میرا اُن کے ساتھ بہت احترام کا رشتہ تھا. ہمیں شخصیات کو اُن کی زندگی میں بھی یاد کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
ڈاکٹر تابش مہدی کے فرزند شاہ اجمل فاروق ندوی نے اپنے والد کی زندگی کے بہت سے مخفی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اُنیس سال کی عمر سے تہجد کی نماز کے پابند تھے اور سفر میں بھی اس کا اہتمام کرتے تھے. زندگی بھر عشقِ رسول میں رچے بسے رہنے کا ہی نتیجہ تھا کہ آخری وقت میں اُن کی زبان پر درود و سلام جاری تھا۔
خطبہء صدارت پیش کرتے ہوئے بزرگ عالم دین مولانا عبداللہ طارق دہلوی نے کہا کہ اچانک ڈاکٹر تابش مہدی کی وفات کی خبر سن کر سخت افسوس ہوا. اُن سے میرا تعلق بہت پرانا تھا. میرا خیال ہے کہ شاعری بہت بعد میں اُن کی شناخت بنی، پہلے اسلامیات کے متعلق اُن کی کئی اہم تحقیقی کتابیں منظر عام پر آئیں. ان میں سے کچھ اب نایاب بھی ہوچکی ہیں. علمی دنیا کے لیے اُن کی ایک بہت اہم کتاب “میرا مطالعہ” تھی، جس میں انھوں نے مشاہیر امت کے مطالعے کے متعلق انٹرویو جمع کیے تھے۔
اس تعزیتی جلسے میں انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے بانی ڈاکٹر محمد منظور عالم نے اپنی سخت علالت کے باوجود بنفس نفیس شرکت کی. دوسرے اہم شرکاء میں ڈاکٹر تابش مہدی کے بڑے فرزند جناب دانش فاروق فلاحی، ڈاکٹر سید نکہت حسین ندوی، مولانا امتیاز قاسمی اور مولانا سید احمد ہاشمی وغیرہ شامل تھے. مولانا عبداللہ طارق دہلوی کی دعا پر یہ جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔