سیف الرحمٰن
چیف ایڈیٹر، انصاف ٹائمس
دہلی اسمبلی انتخابات کی گہماگہمی تھم چکی ہے، اور اب 5 فروری، بدھ کے روز عوام کو حقِ رائے دہی کا استعمال کرنا ہے۔ سیاسی جماعتیں خاموشی سے اپنی حمایت کو ووٹ میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جبکہ عوام اپنے عزیز و اقارب سے مشورہ کرکے حتمی فیصلہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
اس موقع پر میں دہلی کے مسلمانوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ “ووٹ صرف جتانے یا ہرانے کے لیے نہیں دیا جاتا، بلکہ اسے حکمتِ عملی کے تحت استعمال کرکے مختلف چیلنجز کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور ایک واضح سیاسی پیغام دیا جاتا ہے۔”
ہمارے چیلنجز
ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے فسطائی ایجنڈے کو مزید طاقتور ہونے سے روکنا ہے۔ اگر جذبات سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے، تو سنگھ پریوار کا اصل مقصد ہر اُس ہندوستانی کے لیے خطرہ ہے جو توحید و رسالت پر کامل ایمان رکھتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنے مفادات کے لیے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کر سکتی ہیں، لیکن وہ ہمارے عقائد، ہمارے وجود، اور ملک کے جمہوری نظام کے لیے سنگھ پریوار کی طرح براہِ راست خطرہ نہیں ہیں۔
ہمارا دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ دہلی سمیت پورے ملک میں ہماری سیاسی اہمیت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ دہلی میں اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی (AAP) نے مسلم ووٹ بینک کو محض ایک غلام ووٹ بینک سمجھ لیا ہے۔ پچھلے انتخابات میں مسلمانوں نے کیجریوال کو اقتدار تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، مگر اس کے باوجود:
-شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور اس کے خلاف مظاہروں پر کیجریوال نے مسلم مخالف موقف اختیار کیا۔
-دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام کے وقت عام آدمی پارٹی خاموش تماشائی بنی رہی۔
-تبلیغی جماعت پر کورونا پھیلانے کا الزام لگا کر مسلم کمیونٹی کو ہراساں کیا گیا اور اسلاموفوبیا کو ہوا دی گئی۔
-یہاں تک کہ اس بار کیجریوال نے کسی بھی مسلم اکثریتی اسمبلی حلقے میں انتخابی مہم تک نہیں چلائی، جو اُس کی پالیسی کی واضح علامت ہے۔
تیسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ انتخابی سیاست میں ہمارے مسائل مکمل طور پر غائب کر دیے گئے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ریاستی مظالم، مسلم سیاسی قیدی، مسلمانوں کے تعلیمی و معاشی مسائل، اور مسلم علاقوں کی ترقی کے سوالات کہیں زیرِ بحث نہیں آتے، جیسے کہ ہمیں تیسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہو۔
دہلی انتخاب میں مواقع
ان چیلنجز کا حل صرف جذباتی ردعمل کے بجائے ایک منظم حکمت عملی اپنانے میں ہے:
1. بی جے پی کو روکنا: دہلی میں بی جے پی کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ عام آدمی پارٹی کو 50 سے کم سیٹوں تک محدود نہ ہونے دیا جائے۔ جہاں بھی عام آدمی پارٹی اور بی جے پی میں سخت مقابلہ ہو، وہاں بی جے پی کو ہرانے کے لیے عام آدمی پارٹی کو متحد ہو کر ووٹ دیا جائے۔
2. متبادل سیکولر قوت کو مضبوط کرنا:کچھ حلقے ایسے ہیں جہاں کانگریس مضبوط پوزیشن میں ہے، جیسے بابُرپور، کالکا جی، کستوربا نگر اور جنگ پورہ۔ ان سیٹوں پر کانگریس کی حمایت کرکے دہلی اسمبلی میں ایک مضبوط اپوزیشن کھڑی کی جا سکتی ہے، جو حکومت پر دباؤ ڈالنے اور مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔
3، اوکھلا، مصطفیٰ آباد اور کراول نگر میں اپنی قیادت کو مضبوط کریں
دہلی میں بی جے پی کے بڑھتے قدم روکنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان اپنی قیادت خود تیار کریں۔ خوش قسمتی سے، اس انتخاب میں ایسی جماعتیں بھی حصہ لے رہی ہیں جو مسلمانوں کے مسائل پر کھل کر بات کرتی ہیں۔
اوکھلا اور مصطفیٰ آباد: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) نے یہاں سے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں — شفاء الرحمٰن (اوکھلا) اور طاہر حسین (مصطفیٰ آباد) — جو شہریت ترمیمی قانون مخالف احتجاجات میں حصہ لینے کی وجہ سے جیل میں بند ہیں۔
-کراول نگر: اس حلقے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مسلم مخالف لیڈر کپل مشرا کے خلاف سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے امیدوار حافظ محمد ہاشم ملک انتخاب لڑ رہے ہیں۔ یہ وہی جماعت ہے جس کے کارکنان نے مسلمانوں کے حقوق کے لیے قربانیاں دی ہیں، کئی لوگ جیلوں میں قید ہیں اور متعدد کو ہندو انتہا پسندوں نے شہید کیا ہے۔
یہاں سوال کسی کو جتانے یا ہرانے سے بڑا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ملت اسلامیہ ہندیہ اپنی قیادت کے ساتھ کھڑی ہوگی؟ کیا ہم اپنے ان نوجوانوں کی قربانیوں کو ووٹ کے ذریعے تسلیم کریں گے جو جیلوں میں بند ہیں؟ کیا ہم ان ماں بہنوں کے جذبات کی لاج رکھیں گے جن کے بیٹے، بھائی، اور شوہر ملت کی جدوجہد میں قید ہیں؟
اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے!
امت شاہ نے کہا تھا: “بٹن ایسے دباؤ کہ اثر شاہین باغ تک جائے!” تو اب وقت آگیا ہے کہ دہلی کے مسلمان ایک ٹھوس پیغام دیں —جیسے آسام میں اکھل گوگوئی اور پنجاب میں امرت پال سنگھ کو جیل میں ہونے کے باوجود جیت دلائی گئی تھی، ویسے ہی اوکھلا، مصطفیٰ آباد اور کراول نگر میں اپنی قیادت کو مضبوط کریں۔ اسلاموفوبیا اور ریاستی مظالم کے خلاف ووٹ کے ذریعے چوٹ لگائیں اور آزاد مسلم و بہوجن سیاسی قیادت کے قیام کی تحریک کو مضبوط کریں!