بہار میں وقف بل کے حوالے سے اٹھے تنازع کے درمیان صحافی فضل المبین کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج جمہوری اقدار اور اظہار رائے کی آزادی پر سنگین سوالات کھڑے کر رہا ہے۔
ڈیجیٹل چینل “ملی خبر” کے ایڈیٹر اور یوٹیوبر فضل المبین نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی افطار پارٹی میں شامل ہونے والے کچھ مسلم چہروں کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں اور سوال اٹھایا کہ وقف اور شریعت جیسے حساس معاملات کو نظر انداز کر کے افطار میں شرکت کرنا کس حد تک جائز ہے؟
ان کی اس تنقید کے بعد جے ڈی یو کسان سیل کے رہنما اصغر علی نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی، اور مانا جا رہا ہے کہ اس کے پیچھے جنتا دل یو کے ایک سینئر لیڈر کا بھی ہاتھ ہے۔ اس اقدام پر صحافیوں اور دانشوروں میں ناراضگی پائی جا رہی ہے۔
صحافیوں کی تنظیم کوگیٹو میڈیا فاؤنڈیشن (CMF) کے صدر شمس تبریز قاسمی نے اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ” فضل المبین پر ایف آئی آر کا اندراج مکمل طور پر جمہوریت کے خلاف ہے۔ سوال اٹھانا ایک صحافی کا حق اور ذمہ داری ہے، نہ کہ جرم۔”
وہیں CMF کے کنوینر سیف الرحمان نے کہا “یہ بدقسمتی ہے کہ ایک صحافی کو صرف اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ اس نے قوم سے متعلق ایک سنجیدہ مسئلے پر بات کرنے کی ہمت کی۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ ایف آئی آر فوراً واپس لی جائے۔”
قابلِ ذکر ہے کہ فضل المبین ملی خبر کے ذریعے چمپارن اور بہار کے مقامی و سماجی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔ وہ اس سے قبل HW نیوز اور ملت ٹائمز سے وابستہ رہے ہیں۔ انہوں نے مولانا مظہر الحق یونیورسٹی سے صحافت کی تعلیم حاصل کی ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف صحافت کی آزادی بلکہ جمہوری سوچ کے لیے بھی ایک بڑا امتحان بن چکا ہے۔