مسلم ارکان پارلیمنٹ کے نام مسلم قائدین و دانشوران کا خط

صدرجمہوریہ نے وقف بل کو نظرثانی کے لیے نہ بھیجا تو وسیع تر جدوجہد پر غور کرنا ہوگا

اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں مسلسل اتحاد سے کام لینے پر اظہار تشکر اور اس کو مزید مستحکم کرنے کی اپیل

نئی دہلی: (پریس ریلیز) صدرجمہوریہ ہند نے وقف بل کو نظرثانی کے لیے نہ بھیجا تو وسیع ترجدوجہدپر غور کرنا ہوگا، یہ بات مسلم ارکان پارلیمنٹ کے نام اپنے مشترکہ خط میں ملک کے مسلم قائدین و دانشوران نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں مسلسل اتحاد سے کام لینے پر اظہارِ تشکرکرتے ہوئے کہا ہے اور اس اتحاد کو مزید مستحکم کرنے کی اپیل کی ہے۔ موومنٹ فار امپاورمنٹ آف مسلم انڈینس کے جنرل سکریٹری نوید حامد کے دستخط سے جاری کردہ خط میں سابق ممبران پارلیمنٹ عزیز پاشا، شاہد صدیقی، محمد ادیب، احمد حسین عمران، کنور دانش علی،سابق رکن منصوبہ بندی کمیشن و قومی کمیشن برائے خواتین ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید، سابق چیئرمین قومی اقلیتی کمیشن وجاہت حبیب اللہ (سبکدوش آئی اے ایس)، سابق وائس چانسلراے ایم یو لفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ، امیرجماعت اسلامی ہندسید سعادت اللہ حسینی، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اور آل انڈیا مومن کانفرنس کے صدر ایڈوکیٹ فیروز احمد انصاری،سابق سی ای او مہاراشٹر وقف بورڈ عبد الرؤف شیخ (آئی اے ایس ریٹائرڈ)، سابق چیف سکریٹری بہار افضل امان اللہ (آئی اے ایس ریٹائرڈ)، اگنو کے سابق وائس چانسلر پروفیسر محمد اسلم، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل کے سابق صدر پروفیسر ابوذر کمال الدین، ہمایوں کبیرانسٹی ٹیوٹ کے صدر ایڈوکیٹ خواجہ جاوید یوسف، ایڈوکیٹ فردوس مرزا، آئی او ایس کی وائس چیئر پرسن پروفیسر حسینہ حاشیہ(انچارج خواتین ونگ،آل انڈیا ملی کونسل)، رضا حیدر (ڈیولپمنٹ پروفیشنل)، محمد شفیق الزماں (آئی اے ایس ریٹائرڈ)، سابق ڈی جی پی محمد وزیر انصاری، تمل ناڈو مسلم منتراکزگم کے صدر پروفیسر ایم ایچ جواہر اللہ، میجر (ر) ایس جے ایم جعفری، مسلم او بی سی آرگنائزیشن کے صدرشبیر احمد انصاری، سلمان انیس سوز (ماہر معاشیات اورمبصرو مصنف)، سینٹرل واٹرکمیشن کے سابق چیئرمین سید مسعود حسین، پروفیسر عصمت مہدی، پرویز حیات، ایڈو کیٹ حافظ رشید احمد چودھری (سینئر ایڈوکیٹ، گوہاٹی ہائی کورٹ)، اردو میڈیا ایسوسی ایشن کے کار گذار صدر احمد جاوید اور کوگیٹو میڈیا فاؤنڈیشن کے صدر شمس تبریز قاسمی نے مسلم ممبران پارلیمنٹ سے کہا ہے کہ ہم آپ کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے وقف اداروں کے تحفظ اور وقف ایکٹ میں مجوزہ ترمیمات کے خلاف پارلیمنٹ میں اپنی جرأت مندانہ کوششوں کا مظاہرہ کیا۔ ان اداروں کے تقدس کی حفاظت کے لیے،جو ہماری ثقافتی اور مذہبی اہمیت کے حامل ہیں، آپ کی مسلسل کاوشوں اور عزم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں اس بات کے لیے بھی دلی مسرت کے ساتھ سیکولر قوتوں کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انھوں نے وقف ایکٹ میں ترمیمات کے دوران مسلم کمیونٹی کے ساتھ مضبوط انداز میں یکجہتی کا اظہار کیا۔ چونکہ اس غیر دستوری بل کے پاس ہونے کے بعد اب ہمیں مستقبل کے لیے طویل جدوجہد کا آغاز کرنا ہے، ہم مسلمانوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے اپنی مشترکہ کوششوں اور تعاون کو مزید مضبوط کرنے کے منتظر ہیں۔ موجودہ صورتحال نے واضح طور پر اقلیتوں کی آوازوں خاص طور پر مسلمانوں کی کمزور ہوتی آواز کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، جو کہ وسیع تر سماجی و سیاسی مباحث میں بے اثر ہو رہی ہے۔ یہ حقیقت اس بات کی غماز ہے کہ کمیونٹی اور دیگر پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکمت عملی میں اہم تبدیلی کی ضرورت ہے۔مسلم قائدین و دانشوران نے اس خط میں لکھا ہے کہ وقف ایکٹ میں ترمیمات کے حالیہ بل کی منظوری نے مسلم کمیونٹی کو تقریباً مایوس اور الگ تھلگ کر دیا ہے، کیونکہ یہ ترمیمات آئین ہند میں دیے گئے ان کے آئینی حقوق کو نظر انداز کر کے کیے گئے ہیں۔ اس عمل نے مسلم نوجوانوں میں بیگانگی کا احساس پیدا کیا ہے، جو اب اپنے ملک کے سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اس بل کی منظوری ہندوستان میں مسلمانوں کی باوقار بقا کی جدوجہد میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ دیکھنا دل دہلا دینے والا ہے کہ موجودہ حالات ہمارے آباء و اجداد کے وژن کے بالکل برعکس ہیں، جنہوں نے ایسی جامع مشترکہ قومیت کا تصور کیا تھا جہاں تمام اقوام ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکیں گی۔ ہمارے اجداد نے الگ ریاست کے تصوّر کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک متحدہ ہندوستان کے مستقبل کی تعمیر میں اپنی صلاحتیں لگائیں، جہاں ہر کوئی مل کر خوشحال زندگی بسرکر سکے۔ اس وژن کا زوال ایک تشویش انگیز رجحان ہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔آپ کی یکجہتی اور عزم ہمارے لیے تحریک اور امید کا ذریعہ ہے۔ ہم یقین کے ساتھ یہ توقع کرتے ہیں کہ یہ یکجہتی پارلیمنٹ کی دیواروں سے باہر بھی پھیلے گی۔ اس سلسلے میں، آپ کی خدمت میں عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ متحد ہوکر معزز صدر جمہوریہ ہند سے وقف ایکٹ میں تجویز کردہ ترمیمات پر نظرثانی کی مشترکہ درخواست کریں۔ اس طرح کا قدم نہ صرف آپ کے عزم کو مزید مضبوط کرے گا بلکہ مسلم کمیونٹی کی اجتماعی آواز کو آگے بڑھائے گا۔ مشترکہ خط میں لکھا گیا ہے کہ اگر صدرجمہوریہ ہندکے دفتر سے مثبت جواب کی راہیں مسدود ہو جائیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں جرأت مندانہ اقدامات پر غور کرنا ہوگا۔ اس میں اندرون پارلیمنٹ اور اس کے باہر روزانہ احتجاج شامل ہو سکتا ہے، جن میں آئندہ پارلیمنٹ کی کارروائی کے بائیکاٹ کے ساتھ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مسلم اراکین پارلیمنٹ کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس پر بھی غور کرنا شامل ہے۔ اس بل کے پاس ہونے کے بعدایک متحدہ جدو جہدکرنا مسلم حقوق کے تحفظ اور ہماری تشویشات کو اجاگر کرنے کے لیے ضروری معلوم پڑتا ہے، جو یقینی طور پر قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرے گا۔انہوں ہم آپ کی حکمت اور قیادت پر اعتماد کرتے ہیں کہ آپ ایک ایسا راستہ متعین کریں گے جو سب کے لیے شمولیت، مساوات اور انصاف کو یقینی بنائے اور مسلم کمیونٹی کی آواز کو بلند کرے۔

ایک بار پھر، ہم آپ کی کوششوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہیں اور اس اہم اقدام میں آپ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com