نئی دہلی: بی جے پی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ریاستیں وقف ترمیمی ایکٹ کو لاگو کرنے سے انکار نہیں کر سکتی ہیں‘۔ آئینی دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے بھگوا پارٹی نے کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا کہ یہ پارٹیاں قانون کی مسلسل مخالفت کرتی ہیں۔ یہ دعویٰ جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کے ایم ایل اے اور ریاستی وزیر حفیظ الحسن کے مبینہ طور پر یہ کہنے کے بعد سامنے آیا ہے کہ ان کے نزدیک شریعت پہلے اور پھر آئین، جبکہ کرناٹک کے وزیر بی زیڈ ضمیر احمد خان نے دعویٰ کیا کہ ریاست میں قانون نافذ نہیں ہوگا۔
وہیں وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی کہا تھا کہ یہ ایکٹ مغربی بنگال میں لاگو نہیں کیا جائے گا۔ اس دوران بی جے پی کے قومی ترجمان سدھانشو ترویدی نے اسے “سنگین اور تشویشناک معاملہ” قرار دیا اور کہا کہ ان لوگوں نے اپنے ریمارکس سے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر ان کی پارٹیاں اقتدار میں رہیں تو آئین خطرے میں پڑ جائے گا۔ انہوں نے متنازعہ ریمارکس کو آئین کے معمار بی آر امبیڈکر کی توہین بھی قرار دیا۔
بی جے پی راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ’ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آئین میں 73ویں اور 74ویں ترمیم کے بعد مرکز، ریاستی اور ضلعی سطح کی حکومتوں کے اختیارات واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ کوئی بھی ضلع، پنچایت ریاستی اسمبلی کے منظور کردہ قانون سے آگے نہیں جا سکتی اور کوئی ریاست مرکز (پارلیمنٹ) سے پاس کردہ قانون کو نظرانداز نہیں کر سکتی،”
سدھانشو ترویدی نے الزام لگایا کہ ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں آئین کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ “وہ آئین کو اپنی جیب میں رکھتے ہیں جبکہ بی جے پی اور این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) آئین کو اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے درمیان لڑائی ہے جو آئین کو اپنی جیب میں رکھتے ہیں اور جو اسے اپنے دل میں رکھتے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا، “کانگریس حکومت نے 73ویں اور 74ویں ترمیم منظور کی تھی، جنہیں اس وقت ‘انقلابی’ کہا جاتا تھا۔
کرناٹک اور جھارکھنڈ کے وزراء کے ریمارکس پر بی جے پی کے ترجمان نے کانگریس اور ان کے اتحادیوں کو ایسے لیڈروں کے خلاف کاروائی کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ ترویدی نے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ عمران مسعود کو ان کے مبینہ ریمارکس کے لئے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’اگر کانگریس مرکز میں اقتدار میں واپس آتی ہے تو ایک گھنٹہ کے اندر ترمیم شدہ وقف قانون کو منسوخ کردیا جائے گا‘۔