ایران پر اسرائیل کا سب سے بڑا حملہ کیسے ممکن ہوسکا!

شمس تبریز قاسمی

ایران پر اسرائیل کا حالیہ حملہ اب تک کا سب سے بڑا اور شدید ترین حملہ ہے، جس میں اسرائیل نے 200 سے زیادہ جنگی طیاروں، ڈرونز اور دیگر جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔ اب تک 20 سے زیادہ ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں اور ایٹمی سائنس دانوں کی شہادت ہو چکی ہے، جن میں ملک کے اہم اور حساس اداروں سے وابستہ افراد شامل ہیں۔

اسرائیل کے اس حملے کو امریکہ نے مکمل طور پر سپورٹ کیا ہے اور ہر سطح پر مدد فراہم کی ہے — عسکری، انٹیلیجنس، لاجسٹک سب کچھ۔ یہ بھی یقینی بات ہے کہ یہ حملہ عراق اور اردن کی زمین استعمال کر کے کیا گیا ہے۔ عراق میں موجود امریکی آرمی بیس سے اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جب کہ اردن کی فضائی حدود کا استعمال بھی کیا گیا۔

لیکن سب سے بڑا اور افسوسناک پہلو اس حملے میں غداروں کا کردار ہے۔ وہ غدار جو موساد کو ایران کے حساس مقامات، افسران کی نقل و حرکت، اور ایٹمی تنصیبات سے متعلق ہر طرح کی معلومات فراہم کرتے رہے۔ آج یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ ایران کے اندر اسرائیل کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں، اور ملک کے اندر مسلسل غداری جاری ہے۔

یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹے سے ایران پر شدید حملے جاری ہیں اور ایران اسے روکنے یا مؤثر دفاع کرنے میں اب تک ناکام نظر آ رہا ہے۔ قوم سوال کر رہی ہے: کہاں ہے ہمارا دفاعی نظام؟ کہاں ہیں وہ ادارے جن پر ہمیں ناز تھا؟

یہ حملہ صرف ایک ملک پر نہیں، بلکہ پورے خطے کے استحکام، خود مختاری اور غیرت پر حملہ ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com