اے سی ایف سی کی ایک شام مرحوم ڈاکٹر اسلم حنیف کے نام

اسلم حنیف اُردو ادب کا ایسا تابناک ستارہ تھا جس نے” وَرَق وَرَق نیا آہنگ کچھ عروضی مضامین سات سو چوّن اوزان پر مشتمل غزلیہ مجموعہ ” جیسا اپنا بیش قیمتی مجموعہ دنیائے ادب کو دے کر یہ ثابت کر دیا کہ عروض کا ماہر ہی ایسا نایاب تحفہ دے سکتا ہے – بہترین استاد بہترین شاعر اور بہترین ماہرِ عروض ڈاکٹر اسلم حنیف کا انتقال گذشتہ سال 6′ اگست کو ہُوا تھا – اسلم چشتی صاحب کے ان سے 44 سال سے گہرے مراسم تھے ڈاکٹر اسلم حنیف صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کر کے اسلم چشتی صاحب نے نہ صرف حقِ دوستی ادا کیا بلکہ اس پروگرام کے ذریعے انہیں پھر سے لوگوں کے دلوں میں زندہ جاوید کر دیا – پروگرام کا آغاز اے سی ایف سی (اسلم چشتی فرینڈ سرکل پونے) کے تعارف سے ہُوا اس کے بعد مہمانِ خُصوصی سیّد فاروق صاحب کا استقبال اسلم چشتی صاحب نے شال، مومنٹو اور پھولوں سے کیا، جناب شاہد صدیقی صاحب، جناب اخلاق آہن صاحب، جناب جاوید رحمانی صاحب ، محترمہ ڈاکٹر شویتا سنگھ اوما ( ماسکو) محترمہ رینو شاہنواز حسین، محترم ظہیر برنی صاحب، اور ڈاکٹر وسیم راشد صاحبہ یہ سبھی مہمانانِ ذی وقار کی حیثیت سے اس پروگرام میں بہ نفس نفیس موجود تھے سبھی کا استقبال اور پذیرائی اسلم چشتی صاحب نے مومنٹو، شال اور پھولوں سے کی- ڈاکٹر الیاس نوید گُنّوری صاحب نے ڈاکٹر اسلم حنیف کے فن اور شخصیت کا مختصر اور جامع تعارف پیش کیا – اسلم چشتی فرینڈ سرکل کی دہلی ایگزیکٹو ٹیم نے اسلم چشتی صاحب کا دہلی والوں کی طرف سے مومنٹو، شال اور پھولوں سے استقبال کیا – پروگرام کے اس سیشن کی نظامت کے فرائض معروف صحافی استاد و شاعرہ ڈاکٹر وسیم راشد صاحبہ نے ہمیشہ کی طرح بحسن و خوبی انجام دیئے – پہلے سیشن کے بعد باقاعدہ مُشاعرے کا آغاز عالمی شہرت یافتہ ناظم و شاعر معین شاداب صاحب نے اپنے مختصر تمہیدی کلمات کے بعد کیا معین شاداب صاحب کی بہترین نظامت نے مُشاعرے میں چار چاند لگا دیئے –

قارئین کے ذوقِ طبع کے لیے ذیل میں چند اشعار پیش کیے جا رہے ہیں –

بہت سادہ ہیں وہ شہپر کبھی کچھ بھی نہیں کہتے

مگر ہر بات میں ان کی ہی من مانی سی رہتی ہے

(پروفیسر شہپر رسول)

زمیں غزل کی ہے رکھئے زرا سنبھال کے پاؤں

پھسل نہ جائیں کہیں آپ کے خیال کے پاؤں

(ڈاکٹر الیاس نوید گُنّوری)

جہاں میں وہ بھی نہ اک دن سکون پائے گا

جو دوسروں کے غموں پر خوشی منائے گا

( ڈاکٹر ماجد دیوبندی)

اس کا تو نشہ شاید اُترے نہ دمِ آخر

نظروں سے مُجھے کس نے یہ جام پلایا ہے

(اسلم چشتی)

مَحبّت اور وفاؤں کی کہانی چھوڑ آتے ہیں

جہاں جاتے ہیں ہم کوئی نشانی چھوڑ آتے ہیں

( ریاض ساغر)

ہر بوند دل کے خون کی پلکوں پہ جم گئی

شدّت سے اس کی یاد جو آئی کبھی کبھی

(پروفیسر عفّت زرّیں)

پھر وہی پیروں کے چھالے پھر وہی دشتِ جنوں

پھر کسی کی جستجو کا بسلسلہ ہونے لگا

(راشدہ باقی حیاء)

اسی کشمکش میں ہم نے ترے ساتھ دن بتائے

کبھی ہنس کے رو دیئے ہیں کبھی رو کے مسکرائے

( ڈاکٹر انا دہلوی)

شاہی مسجد سے ذرا دور ہمارے گھر کو

سیدھے جائیں گے تو چھوٹی سی گلی آئے گی

(ڈاکٹر وسیم راشد)

مرے دل نے تو تجھے اور ہی دستک دی تھی

تونے اے جان جو سمجھا جو سنا اور ہی تھا

(ڈاکٹر امیتا پرسورام میتا)

خواہشوں اور تقاضوں سے پرے ہوتا ہے

روح کا رابطہ جسموں سے پرے ہوتا ہے

(ڈاکٹر شویتا سنگھ اوما)

تری نگاہ تو اس دور کی زکوۃ ہوئی

جو مستحق ہے اسی تک نہیں پہنچتی ہے

(معین شاداب)

میرے کمرے میں صرف کاغذ ہیں

مَیں چراغوں سے خوف کھاتا ہوں

( پروفیسر رحمان مصوّر)

گفتگو کی حسیں دکاں دے دو

اپنے دل کا ہمیں مکاں دے دو

( پروفیسر اخلاق آہن)

حدیبیہ کے مقدّس معاہدے کی قسم

محاذِ جنگ و جدل بھی تری نگاہ میں تھا

( مشرف حُسین محضر)

شبِ وصال کی حسرت نے مار ڈالا ہے

فقیرِ عشق کو چاہت نے مار ڈالا ہے

( میکش اعظمی)

درندوں کی حدیں قائم ہیں لیکن

حدیں سب توڑ ڈالیں آدمی نے

(وارث وارثی)

جب توازن میں فرق آتا ہے

گرنا پڑتا ہے شہسواروں کو

(شرف نانپاروی)

اداسی آنکھ ہے دیدار کے حوالے سے

اداسیوں میں تو ہی تو دکھائی دیتا ہے

( طاہر سعود کرتپوری)

ایسا بھی کیا ہے مجھ میں جو دیکھا کرے کوئی

چاہتوں ہوں میری تمنّا کرے کوئی

( سرتاج امروہوی)

اس کے علاوہ ظہیر برنی، رینو شاہنواز حُسین، وغیرہ نے بھی اپنے بہترین کلام سے سامعین کو محظوظ کیا – مشاعرہ رات 8:30 بجے شروع ہو کر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چلتا رہا اور 2 بجے اختتام پذیر ہُوا – شکریہ کی رسم اے سی ایف سی دہلی ایگزیکٹو کمیٹی کی انچارج ڈاکٹر وسیم راشد صاحبہ نے ادا کی –

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com