سہیل انجم
سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن کے پٹارے کا ڈھکن کیا اٹھایا کہ ایک سے ایک حیرت انگیز انکشافات ہونے لگے۔ ابھی ہم ایک انکشاف پر انگشت بدنداں ہی رہتے ہیں کہ دوسرا انکشاف ہو جاتا ہے جوہمیں دریائے حیرت میں مزید غرق کر دیتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن پر بدعنوانیوں کا الزام کبھی نہیں لگا۔ ایسے الزامات پہلے بھی لگتے رہے ہیں لیکن کمیشن ان الزامات کی سچائی کو سامنے لا کر صورت حال کو واضح کرتا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے دامن پر لگنے والا داغ دھل جاتا تھا۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ٹی این سیشن کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔ ان کے دور میں بھی الزامات لگے۔ لیکن وہ ان کا جواب دے کر الزام لگانے والوں کو مطمئن کر دیتے تھے۔ پہلے کے چیف الیکشن کمشنر اگر مناسب سمجھتے تو الزامات کی جانچ کرتے اور اگر کوئی گڑبڑی پائی گئی ہے تو اسے درست بھی کرتے۔ کمیشن نے کبھی بھی اپنے اڑیل رویے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جمہوریت میں انتخابات کی اور وہ بھی صاف شفاف انتخابات کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ الیکشن جمہوریت کے اہم اجزا میں سے ایک ہے۔ جمہوریت جبھی پائیدار اور مستحکم ہو سکتی ہے جب انتخابی نظام شفاف اور غلطیوں، خرابیوں اور بدعنوانیوں سے پاک ہو اور تمام بالغ رائے دہندگان کو ووٹ دینے کا حق ملے۔ ٹی این سیشن کے بعد جس چیف الیکشن کمشنر کی ایمانداری کی مثال دی جاتی ہے وہ ڈاکٹر ایس وائی قریشی ہیں۔ انھو ںنے بھی انتخابی عمل کو صاف شفاف بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے تھے۔ ایک بار انھوں نے لکھنو میں ہاتھیوں کے مجسموں پر، جو کہ بی ایس پی کا انتخابی نشان ہے، پردے ڈلوا دیے تھے۔ ایسی نوبت کبھی نہیں آئی تھی کہ منتخب ارکان پارلیمنٹ کو اپنے مطالبات منوانے کے لیے پارلیمنٹ ہاوس سے کمیشن کے ہیڈ کوارٹرز تک مارچ کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا ہو۔ لیکن جب پیر کو تیس سے زائد منتخب ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ ہاوس سے کمیشن کے دفتر تک مارچ کرنے کا آغاز کیا تو بھاری پولیس بندوبست کرکے ان سب کو حراست میں لے لیا گیا اور بسوں میں بھر کر وہاں سے دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔ تاہم بعد میں ان سب کو چھوڑ دیا گیا۔ ہندوستان کی انتخابی تاریخ میں شاید ایسا پہلی بار ہوا ہوگا۔
راہل گاندھی پہلے بھی کمیشن کے طریقہ کار میں بدعنوانی کا الزام لگاتے رہے اور کمیشن ہر بار ان سے کہتا رہا کہ وہ ثبوت پیش کریں۔ ای وی ایم میں گڑبڑی یا اس کے ذریعے بے ایمانی کے الزامات کی بھی بھرمار رہی ہے۔ کمیشن کی جانب سے اس کی تردید کی جاتی رہی۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت کے دوران اس کے ایک رہنما سوربھ بھاردواج ایک روز ایک ای وی ایم لے کر اسمبلی پہنچے اور اس کے نظام میں چھیڑ چھاڑ کرکے دکھایا کہ اس طرح بدعنوانی کی جاتی ہے۔ کمیشن نے اپوزیشن رہنماوں کو طلب کیا اور ان کے سامنے ایک مشین رکھی اور کہا کہ وہ اس میں گڑبڑ کرکے دکھائیں۔ لیکن وہ اس کو خراب نہیں کر سکے۔ اپوزیشن کی جانب سے وی وی پیٹ کا مطالبہ کیا گیا تو کمیشن نے اس کا انتظام کیا۔ اب کوئی بھی ووٹر ووٹ ڈالنے کے بعد فوراً دیکھ سکتا ہے کہ اس نے جس کو ووٹ دیا تھا اسی کو گیا ہے یا کسی اور کو۔ لیکن اس کے باوجود ای وی ایم کے تعلق سے مختلف قسم کے الزامات لگتے رہے۔ کمیشن نے کبھی ان کا جواب دیا اور کبھی نہیں دیا۔ بہرحال ای وی ایم کے بارے میں شکوک و شبہات اب بھی موجود ہیں۔ حالانکہ بیشتر سابق الیکشن کمشنروں نے اس الزام کو بے بنیاد بتایا ہے۔ کمیشن پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ پولنگ کی تاریخوں کو اس طرح مرحلہ وار تقسیم کرتا ہے کہ اس سے حکمراں جماعت کو فائدہ پہنچے۔ کمیشن کی جانب سے اس الزام کا بھی جواب دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ کمیشن کے جوابات اپوزیشن کو مکمل طور پر مطمئن نہیں کر سکے۔ بہرحال کمیشن پر الزامات کی بھرمار رہی ہے۔ لیکن اس بار راہل گاندھی نے بہار میں چل رہے ایس آئی آر کی مشق کے حوالے سے جو الزامات لگائے اور ان کے ساتھ جو شواہد پیش کیے اس سے پورے ملک میں ایک سیاسی طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اس سے الیکشن کمیشن جیسے باوقار آئینی ادارے کا اعتبار داو پر لگ گیا۔ حالانکہ اپوزیشن کی جانب سے اس کے اعتبار کے زوال کی بات تو بہت پہلے سے ہی کہی جاتی رہی ہے۔ اس معاملے میں ہم سیاسی پہلو پر کوئی گفتگو نہیں کریں گے کیونکہ اس سے معاملہ دوسرے رخ پر چلا جائے گا۔ لیکن اس پر تو بات کی ہی جانی چاہیے کہ جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان میں صداقت ہے یا نہیں اور اگر نہیں ہے تو کمیشن اپنا اڑیل رویہ چھوڑ کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیوں نہیں کرتا۔
راہل گاندھی نے بنگلورو سینٹرل کے مہادیو پورا اسمبلی حلقے میں ووٹر لسٹ میں پائی جانے والی گڑبڑیوں کا انکشاف کیا ہے جس کی کافی تفصیلات میڈیا میں آچکی ہیں۔ اب اسی قسم کا ایک اور انکشاف ہوا ہے۔ اس سے کوئی نئی بات تو سامنے نہیں آئی البتہ راہل گاندھی کے الزاما ت کو تقویت ضرور ملتی ہے۔ تیجسوی یادو نے ووٹر لسٹ کی بنیاد پر بتایا کہ بہار میں تین لاکھ سے زائد نام ایسے ہیں جن کے گھروں کے پتے کے سامنے صفر صفر لگا ہوا ہے۔ کئی ناموں کے آگے تو نصف درجن صفر لگے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ بی ایل او ان کے پتے حاصل کرنے میں ناکام رہے ہوں اور یہ سوچ کر صفر لگا دیے گئے ہوں کہ انھیں بعد میں درست کر لیا جائے گا۔ لیکن انھیں درست کرنے کے بجائے اسی طرح ووٹر لسٹ چھاپ دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق گوپال گنج میں ایک خاتون کا نام متپڑیا دیوی ہے اور ان کی عمر 119 برس لکھی ہے۔ بھاگلپور میں آشا دیوی کی عمر 120 برس لکھی ہے۔ سیوان میں منتو دیوی کی عمر 124 برس درج ہے۔ اسی طرح آندھرا پردیش کے نیلور شہر کے پولنگ بوتھ نمبر 76 پر سائیں کمار پیروری کی عمر ایک برس اور بھیمل علاقے میں نرسنگھ راو کی عمر 352 برس لکھی ہوئی ہے۔ ان لوگوں کی عمروں کے بارے میں گہرے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ ممکن ہے یہ انسانی جیسے کہ ٹائپنگ کی غلطی ہو۔ لیکن بہرحال غلطی تو غلطی ہے۔ ان کو درست کرنا ضروری ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بہت سے زندہ لوگوں کو مردہ قرار دے دیا گیا ہے اور بلت سے مردہ لوگوں کو زندہ۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران یوگیندر یادو نے ایسے دو لوگوں کو پیش کیا جنھیں مردہ سرار دے دیا گیا تھا۔ لیکن الیکشن کمیشن کی ڈھٹائی دیکھیے کہ اس نے اسے ڈرامہ بازی قرار دے کر مسترد کر دیا۔
ابھی تک بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کے پاس دو دو ووٹر آئی کارڈ ملنے کی بات سامنے آئی تھی لیکن اب موجودہ نائب وزیر اعلیٰ وجے کمار سنہا کے پاس بھی دو دو ووٹر آئی کارڈوں کا انکشاف ہوا ہے۔ حالانکہ انھوں نے اس سلسلے میں وضاحت پیش کی ہے جو کسی کے گلے نہیں اتری۔ الیکشن کمیشن نے تیجسوی یادو کے دو آئی کارڈ پر کہا تھا کہ یہ جرم ہے لیکن وہ سنہا کے بارے میں چپ ہے۔ اسی درمیان کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں یہ کہنے سے کہ وہ بہار کے خارج شدہ 65 لاکھ ووٹروں کی تفصیلات پیش نہیں کرے گا اور اپنی ویب سائٹ پر ووٹر لسٹوں کی پی ڈی ایف فائل ہٹا کر اسکین فائل اپلوڈ کر دینے سے الزامات کی سنگینی بڑھ جاتی ہے اور اس بات میں وزن محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ الزامات سے پیچھا چھڑا کر راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کمیشن کی جانب سے اس قانون کے استعمال پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں جس کے تحت اس نے راہل گاندھی کو حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ماہرین قانون اور بعض سابق کمشنروںکا کہنا ہے کہ اس قانون کا اطلاق ووٹر لسٹ تیار ہونے کے بعد تیس دن تک ہی ہوتا ہے۔ لیکن کئی ریاستی کمشنروں یا اہل کاروں نے اسی قانون کے تحت راہل گاندھی کو نوٹس ارسال کیے ہیں۔ کمیشن کے ان اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جارحانہ رخ اختیار کرکے معاملے کو دبا دینا چاہتا ہے۔ اگر وہ واقعی الزامات کی جانچ کے بجائے اس معاملے کو دبا دینا چاہتا ہے تو یہ ملک کی جمہوری صحت کے لیے فالِ نیک نہیں ہے۔
موبائل: 9818195929






