’’منصفانہ سماجی نظام کے قیام میں آزادی کی اساسی حیثیت‘‘

انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیزاورآل انڈیا ملی کونسل کے مذاکرے میں شہید بھگت سنگھ کے بھانجے، شہیداشفاق اللہ خاں کے پوتے، گاندھی جی کے پڑپوتےاوردیگراہل علم و دانش نے ملک و قوم کو روشنی دکھائی، ملک کی سماجی و سیاسی صورتحال پراظہار فکروتشویش

نئی دہلی:آزادی اگر ہمیں برابری، اختیار، انصاف، شکتی اور خوشحالی نہیں دیتی اور ہماری زندگی میں تبدیلی نہیں لاتی تو ایسی آزادی کا کوئی معنی نہیں ہے۔ یہ بات پیرکو یہاں انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیواسٹڈیز اورآل انڈیا ملی کونسل کے مذاکرہ بسلسلہ تقریب آزادی کے شرکاء سے’’ منصفانہ سماجی نظام کے قیام میں آزادی کی اساسی حیثیت‘‘ کے موضوع پرگفتگو کرتے گاندھی جی کے پڑپوتے اورملک کے مشہوردانشور تشار گاندھی نے کہی۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے ۷۹ سال بعد بھی ہماری آزادی لوگوں کو بااختیارو خوشحال بنانے میں ناکام ہے اوران کو آزادی سے جینے کا حق نہیں دے پائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی آزادی کے بعد بھارت کی عبوری سرکار کے منتریوں سے گاندھی جی نے کہا تھا کہ آپ جب بھی کوئی کام کرنا، سب سے پہلے سماج کے سب سے کمزور و لاچار آدمی کو ذہن میں لانا کہ جو کام آپ کرنے جارہے ہو، اس سے اس کی زندگی میں کچھ فرق آئے گا کیا، وہ جن حالات میں پھنسا ہوا ہے، وہ اس سے کچھ باہر آئےگا کیا؟ غریبی ، جہالت اور غلامی کے اندھیرے سے نکل پائےگا کیا؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو اس کام کے کوئی معنی ہیں ورنہ وہ صرف آپ کے اپنے اہنکاراوراپنی شان کا مظاہرہ ہوگا۔ لیکن آج کی صورت حال کیا ہے۔ یہ دیش آج کس طرف جارہا ہے، اس پر کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ جبکہ شہید اشفاق اللہ خاں کے پوتے جناب اشفاق اللہ نے کہا کہ شہید وطن اشفاق اللہ خاں اور ان کے ساتھی شہیدوں نے ایک ایسے ملک کا خواب دیکھا تھا جہاں سماجی انصاف، بھائی چارہ، امن، مساوات اور خوشحالی ہو۔

شہید بھگت سنگھ کے بھانجے پروفیسرجگ موہن سنگھ۔ نے اس موقع پرکہا کہ جس طرح برطانوی عہد میں لوگوں نے بنگال، مہاراشٹر اور ملک کے کئی دوسرے حصوں میں متوازی سرکاریں بنائیں اور دکھایا کہ آزاد بھارت کیسا ہوگا، گرام سوراج کے آٗئیڈیا پرجس طرح ہمارے قومی رہنماؤں نے کام کیا اسی طرح ہمیں بھی کام کرنا ہوگا۔ شہید بھگت سنگھ سینٹر فارفریڈم اسٹڈیز کے ڈائریکٹرپروفیسر جگموہن سنگھ نے کہا کہ پھانسی کی کوٹھری میں شہید وطن بھگت سنگھ نے آتم کتھا لکھی تھی۔ اس میں لکھا کہ ہمارے بھائی اشفاق اللہ خاں نے ہمارا ساتھ جس استقامت کے ساتھ دیا، وہ ثابت کرتا ہے کہ ہندوستان آزادی کی جنگ میں متحد ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ہمیں جب بھی یاد کریں، ایک ساتھ یاد کریں۔ پروفیسر سنگھ نے کہا کہ پھر ہم نے جلیانوالاباغ میں اس ایکتا کا اظہار دیکھا۔ اسی ایکتا نے ڈائر اور اڈمائر کو پاگل کیا۔ آج کی طاقتیں اسی کالونیل ازم کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس کا مقابلہ ہمیں علم کی طاقت سے کرنا ہے، سوشل جسٹس کو اسی طرح آگے بڑھا کر ہم اس اندھیرے کو دور کرسکتے ہیں۔ جبکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے استاد ڈاکٹر وسیم راجہ نے کہا کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں انسان کی آزادی قسم قسم کے خطرے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے نوجواںوں کے لیے شہید بھگت سنگھ قابل تقلید اور مشعل راہ ہیں۔ آزادی صرف ایک سیاسی انسپائریشن نہیں ہے، یہ انصاف، امن اور استحکام کی بنیاد بھی ہے۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ ملک کی ستر اسی فیصد آبادی آج آزادی سے محروم ہے۔ پروفیسر راجا نے یہ بھی کہا جو ملک عالمی لیڈران پیدا کرتا تھا، وہاں آج فرقوں، گروہوں اور جماعتوں کے لیڈران تو بہت ہیں، پورے ملک اور پوری قوم کا لیڈر ایک نہیں ہے۔

آل انڈیا ملی کونسل کے کارگذارصدر مولانا انیس الرحمٰن قاسمی نے کہا کہ ہم نے جن مقاصد کے لیے آزادی حاصل کی اس میں پیشرفت تو ہوئی لیکن ضرورت ہے کہ دستور ہند کی روح کو عمل میں اتاریں۔ انہوں نے کہا کہ منصفانہ سماج کی تعمیر میں آزادی کی جو حیثیت ہونی چاہیے، لوگوں نے اس کو برقرار نہیں رکھی۔ جبکہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے چیئرمین پروفیسرمحمدافضل وانی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ یہ سوچنا کہ آزادی مل گئی تو کام ہوگیا، صحیح نہیں ہے۔ ملک اور سماج کا منصفانہ مزاج بنانے کی ذمے داری بھی لوگوں پرتھی اور آج بھی ہے۔ انہوں نے زور دے کرکہا کہ اگر اور لوگ سو گئے تو مولانا آزاد اور ان کے لوگوں نے کیا کیا، اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کہاں یہ گڑبڑ ہوئی کہ اتنے بادل چھاگئے، اتنا دھواں آگیا کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ اس پر سوچ وچار ہونا چاہیے کہ ہم نے آزادی کے مقاصد کو کتنا حاصل کیا؟ پروفیسر وانی نے کہا کہ انگریزوں نے ہندوستان کو اپنے تسلط میں رکھنے کے لیے جو پروگرام بنانائے تھے، اگر ہم آج بھی ان ہی میں مبتلا اورالجھے ہوئے ہیں تو ہم آزاد نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انگریزوں کا مقصد صرف حکومت تک محدود نہیں تھا، اگر یہی ہوتا تو زیادہ بڑی بات نہ تھی، کالونیلزم نے سماج میں تفرقوں کے بیج بوئے، ان کو متحد ہونے سے روکے رکھنے کے اسباب پیدا کیے، ان کو جنگوں میں ملوث کرنے کی حکمت عملی اپنائی اور سب سے بڑھ کر ان کو اپنے مذہب کی حقیقت کو سمجھنے سے دور رکھنے کا انتظام کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی سیاسی آزادی ایک واٹرشیڈ تھی جس کے بعد منصفانہ سماج کے قیام کے لیے کام کرنا تھا، منصفانہ مزاج پیدا کرنا تھا۔ بہت سے لوگ تھے جو ایسا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تین سال کے غورو فکرکے بعد ملک کا دستور وجود میں آیا جس کی بنیاد ’’ہم بھارت کے لوگ‘‘ ہیں، جو اس بنیاد کو نہیں مانتے اور لوگوں میں فرق کرتے ہیں، وہی غدار اور آزادی کے دشمن ہیں۔

مذاکرے کا آغازمولانا جمال الدین قاسمی کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ پروگرام کے نظامت شاہ اجمل فاروق ہے تھے۔ انہوں نے مذاکرے کے موضوع پرتعارفی کلمات میں کہا کہ آزادی کو ۷۹ سال ہورہے ہیں۔ آئی او ایس اور ملی کونسل کا سروکارملک و قوم کی فلاح و بہبود سے رہا ہے، اس لئے یہ آزادی کے جشن کا اہتمام بہت سنجیدگی سے کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یوم آزادی صرف جشن منانے کے لیے نہیں ہوتا، اس کے لیے بھی ہوتا ہے کہ ہمارا فریضہ کیا ہے، اس کو ذہنوں میں تازہ کریں۔ مذاکرے کے شرکاء میں آئی او ایس کے سکریٹری جنرل محمدعالم، ملی کونسل دہلی کے صدرحاجی پرویزمیاں اور دیگر معززین بھی شامل تھا۔ پروگرام کا اختتام آل انڈیا ملی کونسل کے اسسٹنٹ جنرل سکریٹری شیخ نظام الدین کے کلمات تشکر پراختتام ہوا۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com