مولانا نے اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت کے ساتھ متحدہ قومیت کی وکالت کی تھی، جو حالات آج اس ملک میں ہیں ان کے تصور میں نہیں تھے: پروفیسر سید جمال الدین
“مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصی عظمت اور عصری معنویت” کے موضوع پر آئی او ایس اور مولانا آزاد اردو نیشنل یونیورسٹی کی دورہ قومی کانفرنس و سیمینار کا اختتام، 27 اداروں کی نمائندگی ہوئی اور 51 مقالے پیش کئے گئے
.مولانا آزاد کے کاموں میں سب سے عظیم کارنامہ ان کا تفسیر قرآن ہے: پروفیسر ظہور محمدخان
.مولانا آزاد کثرت میں وحدت اور مشرق و مغرب میں ایکتا کے سب سے مضبوط علامت ہیں: پروفیسر رفیق الاسلام
نئی دہلی: (نامہ نگار) امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد جدید ہندوستان کے معمار بھی تھے اور اس ملک کا مستقبل بھی ہیں. وہ ایک عظیم مدبر تھے، مدبر وہ ہوتا ہے جو طوفان کے آنے سے پہلے اس کو بھانپ لیتا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کی تدبیر کرتا ہے. انہوں نے وقت سے بہت آگے دیکھ لیا تھا- ان خیالات کا اظہار بدھ کو یہاں ملک کے شہرہ آفاق دانشور اور ماہر اسلامیات پروفیسر اختر الواسع نے”مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصی عظمت اور عصری معنویت” کے موضوع پر انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز اور شعبہ اسلامیات، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقدہ دو روزہ کانفرنس و سیمینار کے اختتامی اجلاس میں کیا. وہ اس کانفرنس کا اختتامی خطبہ پیش کر رہے تھے. انہوں نے کہا کہ جدید ہندوستان کی تعمیر میں مولانا کا بہت اہم کردار ہے. جبکہ اجلاس کا خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے پروفیسر ظہور محمد خان نے کہا کہ مولانا آزاد ایک کثیرالجہات شخصیت کا نام ہے اور وہ ایک سے زائد میدان میں اپنی مثال آپ ہیں، انہوں نے کہا کہ ان کے کاموں میں سب سے عظیم کام تفسیر قرآن ہے. اجلاس کے مہمان اعزازی، عالیہ یونیورسٹی کلکتہ کے وائس چانسلر پروفیسر رفیق الاسلام نے کہا کہ وہ ہندوستان میں قومی ایکتا کے وکیل اور ہندوستان کے تعلیمی نظام کے معمار تھے، آج بھی ان کی وہی اہمیت و معنویت ہے جو کل تھی. انہوں نے کہا کہ وہ وحدت میں کثرت اور مشرق و مغرب میں ایکتا کی سب سے مضبوط علامت ہیں- اجلاس کو مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی پٹنہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد عالم گیر نے بھی خطاب کیا، اس قبل اس کانفرنس کے چھٹے اجلاس میں اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا آزاد نے اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت کے ساتھ متحدہ قومیت کی وکالت کی تھی، جو حالات آج اس ملک میں ہیں ان کے تصور میں نہیں تھے. انہوں نے کہا کہ ان کی اور ان نظریات کی اہمیت و معنویت آج ہمیشہ سے زیادہ ہے. اجلاس کی نظامت کانفرنس کے کوارڈنیٹر ڈاکٹر عاطف عمران کرر ہے تھے، کانفرنس کے کنوینر شاہ اجمل فاروق نے تجاویز پیش کیں جبکہ شکریہ کی تحریک انسٹی کی نائب صدر پروفیسر حسینہ حاشیہ نے پیش کی. کانفرنس کی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ اس دو روزہ کانفرنس میں افتتاحی و اختتامی اجلاس کے علاوہ 6 تکنیکی اجلاس منعقد ہوئے، جن میں 27؍ اداروں اور مراکز کی نمائندگی رہی۔ کُل 51 مقالات پیش کیے گئے۔ اس لحاظ سے اس کانفرنس کو ایک کامیاب کانفرنس کہا جانا چاہیے۔ کانفرنس میں کچھ چیزیں بہت ابھر کر سامنے آئیں، ان کو تجاویز کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے:
1۔ اس مسرت آمیز حقیقت کا احساس بہت شدت کے ساتھ ہوا کہ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کی شخصیت اور خدمات کی کشش آج بھی کم نہیں ہوئی ہے۔ بڑے علمی سرمائے کی موجودگی کے باوجود مولانا آزاد آج بھی علمی دنیا کے لیے محبوب شخصیت ہیں۔ اس لیے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ان کی شخصیت کو علمی کاوشوں کا موضوع بنایا جائے۔
2۔ یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ مولانا ابو الکلام آزاد کی عصری معنویت کو متنوع انداز میں بحث و تحقیق کا موضوع بنانے کی شدید ضرورت ہے، خاص طور پر آج کے ہندستان میں۔
3۔ دورانِ کانفرنس محسوس کیا گیا کہ مولانا ابو الکلام آزاد کے متعلق کئی پہلو اب تک تشنہ ہیں۔ ان موضوعات پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً ترجمان القرآن اور دیگر اردو تفاسیر کا تقابلی مطالعہ، مولانا ابو الکلام آزاد اور روحانیت، مولانا آزاد اور اُن کے معاصر علماء و دانش وران کا تقابلی مطالعہ، مولانا آزاد کے سیاسی اور سماجی افکار کے اساسی عناصر، معترضینِ آزاد کے اعتراضات کی تحقیق، مولانا آزاد اور بنگال کے انقلابیوں کے درمیان روابط اور قومی زبان اور مولانا ابو الکلام آزاد۔
4۔ کانفرنس میں یہ بات بھی ابھر کر آئی کہ ہندستان کی مکمل اور غیر ہندستانی مؤرخین کے نظریات سے آزاد جامع تاریخ کی تدوین و ترتیب، مولانا ابو الکلام آزاد کا ایک خواب تھا۔ اس خواب کی تعبیر کی ضرورت پہلے سے زیادہ آج ہے۔ علمی اداروں اور بالخصوص مولانا آزاد کے نام سے منسوب اداروں کو اس سلسلے میں توجہ کرنی چاہیے۔
5۔ اس کانفرنس میں اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ موجودہ دور میں مولانا ابو الکلام آزاد کے پیغام کو مختلف ناحیوں سے سمجھنے اور اختیار کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے کانفرنسوں، سمیناروں اور لیکچرز کا انعقاد کیا جاسکتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نے اس کانفرنس کے ذریعے اس علمی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ علمی و تحقیقی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغام کو آگے بڑھائیں۔ اس طرح کے علمی منصوبوں میں آئی او ایس بھی دوسرے ادارون کے ساتھ اشتراک کرسکتا ہے۔






