تحریر : محمد مبارک مدنی، ہریانہ
آلِ سعود: قبیلہ و نسب
آلِ سعود کا تعلق عرب کے مشہور و معروف قبیلے “عنزہ المذحجیّہ” سے تھا۔ ابتدا میں یہ قبیلہ جزیرۂ عرب کے شمال مشرقی علاقے میں مقیم تھا، لیکن حالات و اسباب نے انہیں ہجرت پر مجبور کیا۔ چنانچہ یہ خاندان وسطی نجد میں داخل ہوا اور وہاں ایک نئی بستی آباد کی جسے “الدرعیہ” کا نام دیا گیا۔ یہ واقعہ 850 ہجری کے لگ بھگ پیش آیا اور یہی بستی بعد میں آلِ سعود کی امارت اور اسلامی تحریک کا مرکز بنی۔
سعود کو “آلِ یہود” کہنا صرف توحید دشمن عناصر کی بوکھلاہٹ ہے۔ ان کا اصل اختلاف آلِ سعود کی دعوتِ توحید اور نظامِ شریعت سے ہے، نہ کہ نسب سے۔
اسلامی تاریخ یہ گواہی دیتی ہے کہ آلِ سعود نے حرمین شریفین کی حفاظت، شریعت کے نفاذ اور مسلمانوں کی خدمت میں وہ کردار ادا کیا ہے جو دشمنانِ اسلام کو برداشت نہیں ہوتا۔حقیقت یہ ہے کہ “آلِ یہود” کہنا ایک ایسی دشنام طرازی ہے جو نہ تاریخ میں جڑ رکھتی ہے اور نہ ہی عقل میں۔
سیاسی پس منظر
جب آلِ سعود نجد میں آباد ہوئے تو پورا علاقہ سخت انتشار اور خانہ جنگی کا شکار تھا۔
ہر قبیلے کا سردار اپنی اپنی چھوٹی امارت قائم کیے بیٹھا تھا۔
بستیوں اور قصبوں میں باہمی رقابت اور دشمنی عام تھی۔
سلطنتِ عثمانیہ محض ایک نام کے طور پر موجود تھی، اس کی براہِ راست عملداری اس خطے میں باقی نہیں رہی تھی۔
یوں نجد ایک سیاسی خلا اور بدامنی کے دور سے گزر رہا تھا۔
امارتِ درعیہ اور محمد بن سعود
ایسے حالات میں 1139ھ (1727ء) میں آلِ سعود کے ایک جلیل القدر فرد، امیر محمد بن سعود، نے درعیہ کی امارت سنبھالی۔ وہ نہ صرف ایک قبائلی سردار تھے بلکہ مضبوط عزم اور دوراندیشی رکھنے والے قائد بھی تھے۔ ان کی قیادت میں درعیہ ایک چھوٹی سی بستی سے نکل کر ایک باوقار اور مستحکم مرکز بننے لگی۔
اصلاحی فضا اور نئی تحریک کی بنیاد
یہ وہی دور تھا جب جزیرۂ عرب میں علمی اور دینی اصلاح کی ایک نئی لہر اٹھی، جسے شیخ محمد بن عبد الوہاب کی دعوت نے مزید تقویت بخشی۔ آلِ سعود اور شیخ محمد بن عبد الوہاب کی یہ رفاقت دراصل ایک نئے اسلامی دور کی ابتداء تھی۔ امیر محمد بن سعود نے نہ صرف سیاسی استحکام کے لیے قدم بڑھایا بلکہ توحید اور شریعتِ اسلامی کے نفاذ کی راہ بھی ہموار کی۔
یوں نجد کی سرزمین، جو کبھی انتشار اور کمزوری کا شکار تھی، آلِ سعود کی قیادت اور شیخ محمد بن عبد الوہاب کی اصلاحی دعوت کے ملاپ سے ایک نئی تاریخ رقم کرنے لگی۔ یہی بنیاد آگے چل کر پہلی سعودی ریاست کی صورت میں سامنے آئی، جس نے اسلامی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
یہ مضمون دراصل اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ آلِ سعود کی جدوجہد محض اقتدار کی کہانی نہیں تھی بلکہ یہ اسلامی دعوت، توحید کے پیغام اور سیاسی استحکام کا ایک ایسا سنگم تھا، جس نے پورے خطے کی تاریخ کا رخ بدل دیا۔
شیخ محمد بن عبد الوہابؒ
ابتدائی حالات اور نسب
شیخ محمد بن عبد الوہابؒ (1115ھ – 1206ھ) کا تعلق عرب کے مشہور قبیلہ بنی تمیم سے تھا۔ ان کے خاندان کو آلِ مشرف کہا جاتا تھا اور یہ نجد کے علاقے عُیینہ میں آباد تھے۔ شیخ کی پیدائش اسی بستی میں ہوئی، جو اس وقت علمی اعتبار سے بھی مشہور مقام تھا۔ ان کے والد شیخ عبد الوہاب بن سلیمان عیینہ کے قاضی تھے، اس طرح شیخ کو دینی ماحول میسر آیا۔
تعلیم و تربیت
ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ کم عمری میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ مزید علم حاصل کرنے کے لیے مکہ و مدینہ کے اسفار کیے۔ مدینہ منورہ میں مشہور عالم شیخ محمد حیات السندی سے کسبِ علم کیا۔ پھر بصرہ اور احساء گئے جہاں مختلف علما سے استفادہ کیا۔ یہی علمی سفر ان کے ذہن کو جلا اور دعوتِ اصلاح کے لیے ایک بنیاد فراہم کرنے والے ثابت ہوئے۔
اصلاحی تحریک کا آغاز
اس دور میں نجد اور اطراف میں شرک، بدعات اور خرافات عام ہو چکی تھیں۔ قبروں اور درگاہوں پر نذرانے، جھاڑ پھونک، جادو ٹونا اور دین سے دوری زندگی کا حصہ بن گئی تھی۔ شیخ محمد بن عبد الوہابؒ نے قرآن و سنت کی اصل تعلیمات کی روشنی میں ایک اصلاحی تحریک کا آغاز کیا اور توحیدِ خالص کی دعوت دی۔
انہوں نے بدعات اور خرافات کی مخالفت کی اور عوام و خواص کو اس بات کی طرف بلایا کہ دین صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ہے۔ ان کی مشہور تصنیف “کتاب التوحید” نے اصلاحی فکر کے دروازے کھول دیے۔
محمد بن عبد الوہاب کو بدنام کرنے کی حقیقت اور “وہابی” کا پروپیگنڈہ
شیخ محمد بن عبد الوہابؒ (1703ء–1792ء) جزیرۂ عرب کے عظیم مصلح اور عالم تھے جنہوں نے قرآن و سنت کی اصل تعلیمات کو زندہ کرنے، شرک و بدعت کے خلاف جہاد کرنے اور صرف اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ ان کی دعوت کا مقصد کوئی نیا فرقہ بنانا نہیں تھا بلکہ اسلام کو اس کی اصل بنیادوں پر لوٹانا تھا۔
مگر اس وقت کے حکمرانوں اور قبر پرستی و بدعات سے وابستہ طبقات نے اپنے مفاد کے لیے ان کی سخت مخالفت کی۔ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ان کے ماننے والوں کو “وہابی” کہا گیا تاکہ یہ تاثر دیا جائے کہ وہ کوئی نیا مذہب یا فرقہ ہیں، حالانکہ وہ دراصل اہلِ سنت والجماعت ہی تھے۔
شیخؒ پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں یا اہلِ بیت کی گستاخی کرتے ہیں، حالانکہ ان کی پوری زندگی قرآن و سنت، صحابہ و اہلِ بیت کی محبت اور توحید کی حفاظت میں گزری۔
حقیقت یہ ہے کہ “وہابی” نام ایک من گھڑت لیبل ہے، جس کا مقصد صرف توحید کے پیغام کو بدنام کرنا ہے۔ شیخ محمد بن عبد الوہابؒ کی تحریک دراصل اسلام کو اصل شکل میں پیش کرنے اور باطل عقائد کو ختم کرنے کی کوشش تھی، جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔
مخالفت اور مشکلات
جب ان کی آواز پھیلی تو کئی مقامی سردار اور قبائلی حکام مخالف ہو گئے۔ انہیں بعض مقامات سے نکال دیا گیا۔ بصرہ اور احساء میں بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ہر بار ان کی دعوت کے اثرات مزید گہرے ہوتے گئے اور نئی زمین ملتی گئی۔
درعیہ کی طرف واپسی
بالآخر شیخ محمد بن عبد الوہابؒ نے درعیہ کا رخ کیا۔ یہاں انہیں ایسا ماحول ملا جو ان کی تحریک کے لیے سازگار تھا۔ اسی بستی میں ان کی ملاقات آلِ سعود کے سربراہ امیر محمد بن سعود سے ہوئی۔
آلِ سعود اور شیخ محمد بن عبد الوہابؒ کا اتحاد
یہ ملاقات جزیرۂ عرب کی تاریخ میں ایک انقلابی موڑ ثابت ہوئی۔ دونوں نے ایک معاہدہ کیا:
شیخ محمد بن عبد الوہابؒ دین کی اصلاح اور توحید کی دعوت جاری رکھیں گے۔
امیر محمد بن سعود سیاسی و عسکری حمایت فراہم کریں گے۔
یہ اتحاد محض ایک سیاسی جوڑ نہیں تھا، بلکہ دین و سیاست کا حسین امتزاج تھا۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر پہلی سعودی ریاست (1157ھ/1744ء) کی عمارت کھڑی ہوئی۔
پہلی سعودی ریاست کے اثرات
امارتِ درعیہ تیزی سے پھیلنے لگی۔ اسلامی شریعت کا نفاذ ہوا، عدل و انصاف قائم کیا گیا، اور بدعات و خرافات کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اس اتحاد نے پورے نجد کو ایک پرچم تلے جمع کر دیا۔
نمایاں اساتذہ و علماء
شیخ محمد بن عبد الوہابؒ نے کئی اکابر علما سے علم حاصل کیا، جن میں:
1. شیخ محمد حیات السندی (مدینہ منورہ)
2. شیخ عبداللہ بن سیف النجدي (الحجاز)
3. شیخ عبداللہ الاحسائی الشافعی (احساء)
4. شیخ محمد المجموعی (بصرہ)
شامل ہیں۔ ان سب کی علمی برکتوں نے شیخ کے ذہن کو جلا بخشی۔
شیخ محمد بن عبد الوہابؒ اور امیر محمد بن سعود کا یہ اتحاد محض ایک علاقائی تبدیلی نہیں تھا بلکہ یہ ایک ایسی تحریک تھی جس نے عرب کی تاریخ کا رخ بدل دیا۔ اس نے دین کو دوبارہ مرکزیت بخشی، توحید کے پرچم کو بلند کیا اور ایک ایسے سیاسی و دینی نظام کی بنیاد رکھی جو بعد میں موجودہ سعودی عرب کی صورت میں دنیا کے نقشے پر نظر آتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ شیخ محمد بن عبد الوہابؒ اور آلِ سعود کا اتحاد دین و سیاست کے اس توازن کی بہترین مثال ہے جو نہ صرف جزیرۂ عرب بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک سبق رکھتا ہے۔
مملکتِ سعودیہ عربیہ: توحید، قربانی اور استقامت کی داستان
جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو کچھ نام اور کچھ واقعات ایسے سامنے آتے ہیں جو محض تاریخ نہیں بلکہ ایک مسلسل داستان ہوتے ہیں۔ مملکتِ عربیہ سعودیہ بھی ایسی ہی ایک حقیقت ہے جس کی بنیاد ایمان اور توحید پر رکھی گئی اور جس نے تین بار زوال کے بعد اپنی بقا اور عروج کا سفر طے کیا۔ یہ تاریخ محض بادشاہوں کے تخت و تاج کی کہانی نہیں بلکہ قرآن و سنت کے سایے میں پروان چڑھنے والی ایک تحریک کی تاریخ ہے۔
پہلا دور: ایمان کی بنیاد پر قائم ریاست (1744ء ـ 1818ء)
اٹھارہویں صدی کے وسط میں نجد کی سرزمین پر ایک عظیم اتحاد وجود میں آیا۔ ایک طرف توحید کی پکار بلند کرنے والے شیخ محمد بن عبدالوہاب تھے اور دوسری طرف درعیہ کے حکمران امام محمد بن سعود۔ یہ اتحاد اس بات کا اعلان تھا کہ اب حکومت اور دعوت ایک ہی صف میں کھڑی ہیں۔
یہ ریاست مکہ اور مدینہ تک پھیل گئی، حرمین شریفین کو بدعات اور خرافات سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی۔
عوامی زندگی میں شریعت کو عملی صورت دی گئی اور دستور صرف قرآن و سنت کو قرار دیا گیا۔
مگر 1818ء میں عثمانی افواج کے حملے نے اس خواب کو موقتاً چکنا چور کر دیا۔ درعیہ کھنڈر بن گیا، لیکن توحید کی شمع بجھائی نہ جا سکی۔
دوسرا دور: ریاض سے ابھرنے والی روشنی (1824ء ـ 1891ء)
چند ہی برس بعد ریاض کے افق پر ایک اور ستارہ نمودار ہوا۔ امام ترکی بن عبداللہ نے شکست خوردہ قوم کو پھر سے ایک پرچم تلے جمع کیا۔
ریاست نے دوبارہ استحکام پایا، عدالتوں میں شریعت نافذ رہی اور دعوتِ توحید کا سلسلہ جاری رہا۔
امام فیصل بن ترکی نے اپنی حکمت و دانائی سے قبائل کو متحد کیا۔
لیکن افسوس کہ وقت کے ساتھ ساتھ اختلافات نے جنم لیا۔ باہمی جھگڑے اور قبائلی لڑائیاں بڑھتی گئیں اور بالآخر 1891ء میں یہ ریاست بھی ختم ہوگئی۔ امام عبدالرحمن بن فیصل کو نجد چھوڑنا پڑا، لیکن یہ جدوجہد ایک نئی امید کے لیے زمین ہموار کر گئی۔
تیسرا دور: جدید مملکت کا عروج (1902ء تا حال)
1902ء کی ایک سرد صبح تھی جب نوجوان اور باہمت شہزادہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے چند ساتھیوں کے ساتھ ریاض پر حملہ کیا اور اسے فتح کر لیا۔ یہ لمحہ تاریخ کا سنگِ میل تھا۔
عبدالعزیز نے منتشر علاقوں کو متحد کر کے 1932ء میں باضابطہ طور پر مملکتِ عربیہ سعودیہ کا اعلان کیا۔
اس مملکت کا دستور صرف قرآن و سنت تھا، عدالتیں شریعت پر فیصلے دیتیں، اور توحید کو ریاستی اساس بنایا گیا۔
اس کے بعد آنے والے حکمرانوں نے اپنے اپنے دور میں خدمات انجام دیں:
شاہ سعود نے جدید منصوبے شروع کیے۔
شاہ فیصل نے تعلیم اور خارجہ پالیسی میں انقلاب برپا کیا اور OIC کی بنیاد رکھی۔
شاہ خالد نے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی۔
شاہ فہد نے حرمین شریفین کی عظیم توسیع کرائی اور ملک کو جدید دنیا سے جوڑا۔
شاہ عبداللہ نے اصلاحات اور تعلیم پر توجہ دی۔
اور آج شاہ سلمان Vision 2030 کے ذریعے سعودی عرب کو نئی سمت دے رہے ہیں۔
دستور اور اسلامی نفاذ
سعودی عرب کے آئین (Basic Law of Governance) میں واضح ہے کہ:
مملکت کا دین اسلام ہے۔
دستور قرآنِ مجید اور سنتِ نبوی ہے۔
حکومت کی بنیاد توحید ہے اور حرمین شریفین کی خدمت اس کا شرف۔
یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب آج بھی دنیا میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ ایک طرف یہ دینِ اسلام کا مرکز ہے اور دوسری طرف جدید ترقی کا نشان۔
تین بار زوال اور تین بار عروج ۔۔۔ یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جس ریاست کی بنیاد توحید اور قرآن و سنت پر ہو، اس کا وجود وقتی رکاوٹوں سے ختم نہیں ہوتا۔ آج سعودی عرب ایک حقیقت ہے، ایک قوت ہے اور ایک مرکز ہے، جہاں سے ایمان کی روشنی پوری دنیا تک پھیل رہی ہے۔






