خبر درخبر(504)
شمس تبریز قاسمی
اتر پردیش سمیت پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج پر پورہے ہندوستان کی نظر ہے ،ابتدائی رجحانات نے پانچوں ریاستوں میں شکست وفتح کا بھی فیصلہ کردیاہے ،اتر پردیش اور اتراکھنڈمیں بی جے پی واضح اکثریت کے ساتھ جیتتی ہوئی نظر آرہی ہے ،پنجاب گوااور منی پور میں کانگریس آگے ہے،عام آدمی پارٹی بہتر کارکردگی دکھانے میں ناکام نظر آرہی ہے اور نہ ہی کوئی اور علاقائی پارٹی کامیاب ہوسکی ہے، اتر پردیش کے اب تک کے رجحانات میں بی جے پی تین سو سے زائد سیٹوں پر آگے چل رہی ہے اور ایسا لگ رہاہے کہ اپوزیشن کا مکمل طور پر صفایا ہوجائے گا، بہر حال مرکز کے ساتھ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں اب بی جے پی کی حکومت ہوگی اور اس طرح یہ پارٹی سب سے زیادہ طاقتور ہوجائے گی ،یہ ایسی حکومت ہوگی جس میں برائے نام بھی کوئی مسلمان شامل نہیں ہوگا اورنہ اپوزیشن کا کوئی اثر ورسوخ ہوگا ۔
403 سیٹوں میں سے 300 سے زائد سیٹیں حاصل کرنا بہت بڑی کامیابی ہے اور ملک میں بی جے پی کے مزید مضبوط ہونے کا اشارہ ہے ۔اتر پردیش کے رواں اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اثر راجیہ سبھا کے انتخاب پر پڑے گا ،2019 کا عام انتخاب بھی براہ راست اس سے متاثر ہوگا اوردوسری مرتبہ مرکز میں بی جے پی کے برسر اقتدار رہنے کیلئے راہ ہموار ہوں گے۔
اتر پردیش کا نتیجہ بتارہاہے کہ یہاں کی عوام نے ترقی ،وکاس اور فلاحی کاموں کو صرف نظر کرتے ہوئے فرقہ پرستی اور ہندتوکے ایجنڈے پر چلتے ہوئے ووٹنگ کی ہے ،اس حقیقت سے انکا ر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ مرکز میں تین سالہ بی جے پی کا دور اقتدار ناکام ثابت ہواہے اور بلاتفریق مذہب عوام ترقیاتی بنیادی پر اس حکومت سے خوش نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بی جے پی تاریخ ساز جیت حاصل کررہی ہے ،عوام بڑی تعداد میں اسے حکومت میں دیکھنا چاہتی ہے تواس کا واضح مطلب نکلتاہے کہ ہندوستان کی جمہوریت بدل رہی ہے ،ڈیموکریسی کا منظر نامہ تبدیل ہورہاہے ،یہاں کی عوام ترقی کے بجائے نفرت اور فرقہ پرستی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ا ور وہ ایسے لوگوں کو اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے جو مسجد اور مندر کے نام پر فساد کرائے ،جو مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرے ،جومسلم عباد ت گاہوں کو منہدم کرانے کا دعوی کرے ،جو مسلمانوں کو یہاں سے در بدر کرنے کی باتیں کرے ،جس کے منی فیسٹو میں رام مندر کی تعمیر کا وعدہ ہواو رمذہب کے نام پر سیاست کرے ۔
اتر پردیش میں اکھلیش یادو نے ترقیاتی کام کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،ان کی شبیہ بھی صاف ستھری تھی ،ہاں مظفر نگر فسادکے تئیں مسلمانوں کی ان سے ناراضگی تھی کیوں کہ وہ اس پر قابو پانے میں ناکام رہے تاہم کانگریس سے اتحاد کے بعدمسلمان سمیت عوام کا رجحان ان کی جانب ہوگیا تھا،مایاوتی کا اپنا دلت ووٹ بینک رہاہے اور اس بنیاد پر وہ ہمیشہ 70 کے قریبیں سیٹیں لے آیا کرتی تھیں لیکن اس مرتبہ وہ منظرنامے سے بالکیہ غائب ہوگئیں اور سب سے بری شکست ان کی ہوتی نظر آرہی ہے ، حالیہ الیکشن میں ذات پات کی سیاست بھی شکست سے دوچار ہوئی ہے۔
بی جے پی نے یوپی کو فتح کرنے کیلئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیاتھا،میڈیا اور صحافیوں کو بھی انہوں نے خریداتھا ،اس فتح میں دینک جاگرن کا بھی نمایاں کردار ہے جس نے عین انتخاب کے دوران اوپینین پول چھاپ کرکے ہندؤوں کو متحد ہونے کا پیغام دیا،بی جے پی رہنماؤں کے ہندتوایجنڈا نے سب سے نمایاں کردار ادکیا اور وزیر اعلی کا چہرہ صاف نہ ہونے کے باوجود بی جے پی کو ووٹ دیا گیا ،مسلم ووٹوں کے انتشار اور مختلف مذہبی رہنماؤں کی تفریق نے بھی بی جے پی کی جیت میں اہم کردار داکیاہے۔
پانچ ریاستوں کے نتائج میں کانگریس کیلئے کچھ اچھی خبر ہے کہ بھلے ہی وہ اتر پردیش اور اترا کھنڈ میں ناکام ہوتی دکھ رہی ہے لیکن پنجاب میں اکالی دل اور بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کررہی ہے ،گوا اور منی پور میں آگے ہے لیکن اخیر کی دوریاستوں میں حکومت کس کی بنے گی یہ کہنا ابھی قبل ا ز وقت ہوگا۔
خلاصہ یہ کہ ہندوستان میں اب ترقی کے نام پرسیاست ناکام ہوگئی ہے،نفرت اور فرقہ پرستی کی سیاست پنپ رہی ہے ،ایسے لیڈروں کو مقبولیت مل رہی ہے جو ہندومسلمان کو بانٹنے کاکام کرتے ہیں،وزیر اعظم نریندرمودی خود ہمیشہ فرقہ پرستی اور ہندتو کے ایجنڈے پر بات کرتے ہیں،2014 سے لیکر 2017 تک تمام انتخابی ریلیوں میں انہوں نے فرقہ پرستی کے ایجنڈے پر بات کی ہے اور یہی فرقہ پرستی اور ہندتوکی پالیسی ان کی جیت کا سبب بن رہی ہے ۔