نئی تہذیب میں جینے کی عادت ڈال لیجئے ….

مشرّف عالم ذوقی
الیکشن ہو چکے، نتائج آ گئے، لیکن ہم ہیں کہ خود کو بدلنے کے لئے تیار نہیں .ہندوستان میں مغل بادشاہوں کی حکومت رہی .ہندوؤں سے تحفظ کے نام پر جزیہ وصول کیا جاتا تھا – ہندو اس وقت نمبر دو کی پوزیشن پر تھے .مغل بادشاہوں کے انصاف کی دہائی نہ دیجئے جو حقیقت ہے اسے قبول کیجئے، فرنگی حکمرانوں نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ہندوستان میں رہنے والوں کی درگت بن گیی .اس حقیقت سے کس کو انکار ہوگا .آزادی کا سورج طلوع ہوا تو جمہوریت کے نعرے بھی عام ہوئے، لیکن کھوکھلی جمہوریت سے ہمارا زیادہ نقصان نہیں ہوا، فسادات ہوتے رہے .ہم ہر بار خود کو محفوظ کرتے ہوئے جینے کی کوشش کرتے رہے سو برس سے زیادہ ہو گئے ، آر ایس ایس ہندو راشٹر بنانے کے خواب کو لے کر اپنے مشن کو خاموشی سے آگے بڑھاتی رہی .آر ایس ایس کو ہندو راشٹر کے قیام کے لئے ایک نیی سوچ ،ایک نیے ویژن کی تلاش تھی .یہ ویژن اسے مودی میں نظر آیا ۔
مودی کے یہاں مسلمانوں کے تیں کھلی مخالفت تھی .مودی کے پاس گجرات ماڈل تھا، مودی نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے ٹوپی تک پہننا گوارا نہیں کیا تھا .اسلئے لوک سبھا دو ہزار چودہ کے انتخاب میں مودی ہندو مذھب کے لئے روشن اور امید سے بھرے ستارے کے طور پر ابھرے .اس سے قبل ہیڈگوار ،ویر ساورکر ، گووالکر ، دین دیال اپادھیاے تک جو ہندو لیڈر سامنے اہے ،انکا تعلّق تنظیم سے زیادہ اور سیاست سے کم تھا .مودی کے پاس سیاسی طاقت بھی تھی .مودی اس حقیقت سے واقف تھے کہ آر ایس ایس کے خواب کو شرمندۂ تعبیر اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب جمہوریت اور سیکولرزم کے کھوکھلے نہروں کی سیاست کرنے والی کانگریس کے وجود کو ختم کیا جائے، یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے، کانگریس آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے .منی پور اور گوا میں بھی مودی کی سرکار بنننے جا رہی ہے ..اگر آپ مودی کی جیت کے لئے اے وی ایم مشین کے تنازعات کو سامنے رکھتے ہیں تب بھی میں مودی کی حمایت کرونگا .کویی تو ہے جو بلا خوف اپنے مذھب کے عروج کے لئے ایسا بھی قدم اٹھا سکتا ہے . ایسا قدم ،جسے اٹھانے کی ہممت کسی اور میں نہیں .ایسا شخص بادشاہ نہیں ہوگا تو کون ہوگا ؟ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز  ہے – تاریخ کی کتابیں ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہیں ..ہندو مذھب کی مضبوط بنیاد کے لئے صحیح اور جوکھم بھرے فیصلوں کو لینے کی ضرورت تھی .یہاں مورال اور نصیحت کی فکر نہیں تھی، یہاں آگے بڑھنے کے لئے فرسودہ نظام کو پامال کرنے کی ضرورت تھی .مودی نے یہ بخوبی کیا . اب غور کریں تو اس وقت سارا ہندوستان مودی کے قبضے میں ہے، مسلمان راجیہ سبھا میں نہیں، مسلمان مرکز کی حکومت میں نہیں .مسلمان اتر پردیش کی حکومت میں بھی نہیں ہونگے .لوک سبھا سے راجیہ سبھا تک مسلمانوں کا وجود مٹ چکا ہے۔ مسلمان اقتدار سے بے دخل کیے جا چکے ہیں۔ حکومت نے مسلم ووٹ بینک کے خلاف ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کر لیا ہے، مسلم ووٹوں کا شیرازہ تو پہلے ہی بکھراہوا تھا، اب برہمن ،جاٹ سے لے کر دلت تک ہندو ہونے کے نام پر مضبوط ہندو ووٹ بینک کا حصّہ بن چکے ہیں .ہم اب بھی خواب غفلت میں ہیں اور ایک دوسرے کی تنقید میں وقت ضایع کر رہے ہیں .ہم اب بھی آج کے ہندوستان کو کانگریس کے زمانے کا ہندوستان سمجھ رہے ہیں، یہ رویہ اس وقت تک ہمیں نقصان پہچتا رہیگا جب تک ہماری واپسی حقیقت کی دنیا میں نہ ہو۔
ذرا آر ایس ایس کے مشن پر غور کیجئے — ساٹھ ہزار شاخیں ..ساٹھ لاکھ سویم سیوک ..ساٹھ ہزار ودیا مندر … تین لاکھ اچاریہ ..پچاس لاکھ ودیارتھی ..پچاس لاکھ ائے بی وی پی کے کاریہ کرتا ..دس کروڑ بی جے پی ممبر … پانچ سو پبلیکشن گروپ ..تیرہ ریاستوں میں سرکار … وشو ہندو پریشد اور ہندو مہا سبھا کے لاکھوں ممبرس … اب بتائیے آپ کہاں ہیں ؟ یہ ایک مختصر سی تفصیل ہے .ہمارے پاس نہ کویی ایسا مشن نہ رہنما..وہ بہت خاموشی سے پھونک پھونک کے ایک ایک مہرے چلتے رہے اور یہ ہندوستان ان کا ہو گیا .کیا اب بھی آپ راہل گاندھی والی کمزور کانگریس سے اپنی نیا پار لگنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ؟ کیا دو ہزار انیس میں آپ کسی معجزے کا انتظار کر رہے ہیں ؟ کس کی بدولت ؟ ایک خوفناک بات اور سن لیجئے ..بہار جیسی ریاستوں میں بھی نتیش مودی کا ہی فارمولہ دہراینگے .کیونکہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے کا مطلب ہوگا ،اکثریتی ووٹ بینک سے ہاتھ دھو لینا .کیا آپ سپا اور بسپا پر یقین کرینگے ؟ ممتا پر ؟
مسلمان لاش نہیں ہیں کہ انھیں کسی کندھے کی ضرورت ہو .میں اب بھی نا امید نہیں، میں برے سے برے حالات میں امید کا دامن نہیں چھوڑتا، اب سچ بولنا سیکھئے .لڑنا بند کیجئے، حقیقت کا سامنا کیجئے .اب فرنگی اور مغل نہیں .ہندو بادشاہ کی حکومت ہے .آپ نمبر دو پر ہیں .اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، مخالفت اور انتقام کا راگ مت الاپئے . آپ بے سہارا ہیں .جاگیے اور جگائیے ..فی الحال اتنا ہی کیجئے ..جب وہ طاقت میں ہیں تو آپ کے حقوق صلب ہونگے، چلّانے چیخنے کی جگہ حکومت سے مکالمہ کا انداز اپنائے – خواب دیکھنا چھوڑ دیجئے– ایک بات اور ہے ،طارق فتح علی اور طلاق کے مسائل پر بھی آپ کی چیخ و پکار نے ہندو ووٹوں کو مضبوط کرنے کا کام کیا ہے .کیا ہمارے علما مستقبل میں بغیر کسی ہنگامے کے ،کسی ایک بہتر راے پر اتفاق کر سکیںگے ؟
ایسی فضا صرف ہندوستان میں نہیں ہے .ہم اس لئے خوف زدہ ہو گئے کہ ہم نے کبھی حقیقت کی آنکھوں سے حالات کا تجزیہ نہیں کیا .گھبرانے کی بات نہیں ہے۔کوئی طاقت ہمیں اچانک ہلاک کرنے نہیں آ رہی ہے .زندہ قوموں کا بھروسہ ماضی سے زیادہ حال پر ہوتا ہے۔