تاریخ کو بدلنے کی ضرورت صرف اسی وقت آتی ہے جب انسان اپنے آپ کو یا اپنی قوم کودیگر اقوام سے برتر سمجھنے لگتا ہے: پروفیسر محمد رفعت ایف ای ایس آر اور شعبہ اردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اشتراک سے یک روزہ سمینار

نئی دہلی:  فورم فار ایجوکیشنل اسٹڈیز اینڈ ریسرچ اور شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اشتراک سے یک روزہ سمینار کا انعقاد بعنوان ’’ ای سی ای آر ٹی ، نصاب: زبان، مواد اور تجاویز ‘ کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار کے پہلے سیشن کی صدارت پروفیسر شہپر رسول (صدر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ) نے فرمائی جبکہ دوسرے سیشن کی صدارت پروفیسر محمد رفعت (فیکلٹی آف انجینرنگ) نے فرمائی۔ افتتاحی کلمات میں سیمنار کے مقاصد بنیان کرتے ہوئے جناب محمد آصف اقبال نے کہا کہ فورم نے اپنے دارئر ہ عمل میں سماجی علوم، انسانی علوم و زبان،اور ایجوکیشنل اسٹڈیز کی درسی کتابوں کا معیار اور مواد کے جائزے کا کام طے کیا ہے۔اور اسی سلسلے کا یہ پہلے سیمنار ہے جس میں این سی ای آر ٹی کی تاریخ کی کتابوں کا جائزہ ریسرچ پیپر کی شکل میں یہاں پیش کیا جائے گا۔اس پوری سرگرمی کا مقصد معیار تعلیم و نصاب کو بلند کرنا ہے۔
فارم کے ڈائریکٹر پرواز رحمانی نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ قومیت کی بنیاد پر انسانوں کو انسانوں سے لڑانے کا کام چلتا آرہا ہے ۔نیز اس رنجش کو استحکام بخشنے میں تاریخ کی نصابی کتابوں کا خاصا اہم کردار ہے۔ برخلاف اس کے تعلیم کا مقصد ایک ذمہ دار شہری بنانا ہے جو ملک کی تعمیر و ترقی میں معاون ثابت ہوں۔ توصیف احمد نے اپنی پرزنٹیشن میں کرناٹک کی درسی کتب کا جائزہ پیش کیا۔ جس میں انھوں بتایا کہ کس طرح درجہ پانچ ہی سے معصوم طلبہ کے اذہان میں زہر گھولنے کی کوشش کی گئی ،مسلم حکمرانوں کی خدمات کو نظر انداز کیا گیا اور ٹیپو سلطان کی کردار کشی کی گئی ہے، بھکتی تحریک اور صوفی تحریک کو ایک ہی سلسلے کی کڑی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ساتھ ہی اکھنڈ بھارت کا وہ نقشہ بھی پیش کیا جس میں کابل اور اسلام آباد شامل ہیں۔ لیکن جب متعلقہ اداروں کو متوجہ کیا گیا تو انہیں نے بضرورت قدر تبدیلی بھی کی۔پروفیسر فاروق انصاری ،شعبہ تعلیم،این سی ای آر ٹی نے قومی تعلیمی پالیسی کا مطالعہ خاص طور سے ۱۹۶۸ء اور ۱۹۸۶ء کی تعلیمی پالیسی کی روشنی میں تجزیہ پیش کیا۔ آپ نے بتایا کہ دراصل تاریخ نہیں بدلتی لیکن اس کو پیش کرنے کا نظریہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ ۱۹۶۸ء اور ۱۹۸۶ء کی تعلیمی پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے کہا کہ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ تکثیریت ہی ہمارے ملک کی اصل وقوت ہے۔
عرفان وحید ،پی ایچ ڈی اسکالرنے اپنا مقالہ بعنوان”تاریخ نویسی پر اثر انداز ہونے والے عوامل” پیش کیا۔ مقالے میں تاریخ نویسی کے دو اپروچ دائیں اوربائیں بازو کا تجزیہ مثالوں کی روشنی میں پیش کیا۔پہلے سیشن کے صدارتی خطاب میں پروفیسر شہپر رسول (ہیڈ شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)کہا کہ یہ وقت ہاتھ پے ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کا نہیں ہے بلکہ لگاتار تگ و دو ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ حق اور ناحق کا قریبی تعلق ہے۔ اگر ناحق کوتکرار کے ساتھ دہرایا جائے تو وہ حق لگنے لگتا ہے۔ ساتھ ہی آپ نے نصابی مندرجات میں غیر مساوی روش پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
دوسرے سیشن میں ڈاکٹر جاوید اختر ،گیسٹ فکلٹی ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے مقالے میں بارہویں جماعت کی نصابی کتاب کا تجزیہ پیش کیا۔ جس میں انھوں نے بتایا کہ این سی ایف ۲۰۰۵ء کے بعد کا ایڈیشن تاریخ کی سمجھ پیدا کرانے میں کسی حد تک کام یاب رہا ہے۔ آپ نے نصابی کتب کے منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی ۔ نیز اردو، ہندی اور انگریزی ایڈیشن کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا۔ دوسرا مقالہ خان یاسر (پی ایچ ڈی اسکالر، ڈی یو) نے بعنوان’’ حق، ناحق اور مکمل خاموشی‘‘ پیش کیا۔ جس میں آپ نے کیبینٹ مشن کا مطالعہ اور تجزیہ ،نیز پاکستانی وزارت تعلیم کی جانب سے شائع کتاب اور این سی آرٹی کی درسی کتب تقابلی جائزہ پیش کیا۔ آپ نے کہا کہ تاریخ کے ذریعے ایک نسل اپنے تجربات کو آنے والی نسل تک پہنچاتی ہے، تاکہ موجودہ نسل کے لیے ان تجربات کی روشنی میں لائحہ عمل تیار کرنا آسان ہو جائے۔ تیسرا مقالہ ڈاکٹر خالد مبشر ،شعبہ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے بعنوان ’’ جدو جہد آزادی ہند کا بیانیہ ، این سی ای آرٹی کی نصابی کتاب کے حوالے سے ‘‘ پیش کیا۔ آپ نے مقالے میں آٹھویں جماعت کی نصابی کتاب کا تجزیہ پیش کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ’’ کوئی بھی متن کچھ خاص اہداف کا پابند ہو سکتا ہے اور ہر متن کسی نہ کسی سیاسی جبر کا شکار ہوتا ہے۔‘‘ اپنے مقالے میں ڈاکٹر خالد صاحب نے تاریخی ادوار کے تعین پر سوالیے نشان لگائے نیز نصابی کتاب میں تحریک دیوبند ، تحریک علی گڑھ، شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ، مولانا جعفر تھانیسریؒ، وغیرہ کی خدمات ، ریشمی رومال تحریک کو یکساں نظر انداز کیے جانے پر بجا طور سے تشویش کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں آپ نے کہا کہ تصاویر کا انتخاب اور ذیلی عنوانات بھی نظر ثانی کے مستحق ہیں۔ چھوتھا مقالہ ڈاکٹر انیس فاروقی ،جواہر لعل نہر یونی ورسٹی نے بعنوان ’’این سی ای آر ٹی کے تاریخی نصاب کا مطالعہ : قومی تعلیمی پالیسی کی روشنی میں‘‘ پیش کیا ۔مقالے میں قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۱۶ء کے چند اہم نکات اور اُن کی روشنی میں تاریخ کی درسی کتب کا تجزیہ پیش کیا گیا۔مقالوں کے بعد جناب عبد الوحید استاذ سماجی علوم نے اظہار خیال فرمایا۔آپ نے کہا یہ کوشش لازماً قابل ستائش ہے نیز اسے این سی ای آر ٹی کی رویو کمیٹی کے سامنے بھی پیش کیا جانا چاہیے۔دوسرے سیشن کی صدارتی کلمات ادار کرتے ہوئے پروفیسر محمد رفعت نے فورم کے ذمہ داران کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ اچھی ریسرچ کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس پے بڑی رقم صرف کی جائے بلکہ اصل شرط دل جمعی کے ساتھ ذمہ داری کی ادائیگی ہے اوریہ کام فورم سے وابستہ افراد نے کر دکھایا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا کہ این سی ای آرٹی کی نصابی کتابوں کی بڑی کمی یہ ہے کہ ان کی زبان بڑی خشک اور مشکل ہے جس کا سمجھنا اساتذہ اور طلبہ دونوں ہی کے لیے مشکل ہے۔ تاریخ کا مطالعہ دراصل صحیح واقعے کے جاننے کا نام ہے۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ تاریخ میں حقائق کو ہی بیان کیا جائے۔نیز آپ نے کہا کہ تاریخ کو بدلنے کی ضرورت صرف اسی وقت آتی ہے جبکہ انسان اپنے آپ کو، یا اپنی قوم کو، باقی اقوام سے برتر سمجھنے لگتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی تاریخ دوسروں سے زیادہ زریں اور شاندار ہو۔ سیمنار کا آغاز فیض الرحمن کی تلاوت قرآن سے ہوا۔نیزڈاکٹر فیضان شاہد کے تشکراتی کلمات پر سیمنار کا اختتام ہوا۔

SHARE