چین کی انتہاء پسندی

 پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
چین دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مسلمان مسجد میں جاکر نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں، رمضان کے روز ے نہیں رکھ سکتے ہیں،مسلم بچوں کا مذہبی تعلیم حاصل کرنا قانونی طور پر جرم سمجھاتاجاہے ،انہیں دوسرے ملک میں سفرکرنے کی اجازت نہیں ہے ،ٹی وی چینلوں اور ریڈیوں پر سرکاری پالیسی کو دیکھنے اور سننے سے انکارکرنا بھی جیل کی سلاخوں میں جانے کا سبب بن جاتاہے اور اب عوامی مقامات پر خواتین کیلئے حجاب کا استعمال اور مردوں کا لمبی ڈاڑھی رکھنا بھی جرائم کے دائرے میں آگیاہے ۔ ایک مذہب کے خلاف یہ شدید پابندیاں اس ملک میں عائد ہے جس کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہاں سب سے زیاد مذہبی آزادی پائی جاتی ہے ،کسی طرح کی مذہبی انتہاء پسندی نہیں ہوتی ہے ،ہر شہری کو اپنے انداز میں زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوتاہے ،حکومت اور عوام کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتاہے کہ کون کیا کررہاہے ،کیا پہن رہاہے اور کس طرح کی زندگی گزاررہاہے ۔
چین سب سے کثیر آبادی والا دنیا کا قدیم ترین ملک ہے ،ڈھائی ہزار سال قبل انسانی آبادی کے آثار وہاں پائے جاتے ہیں،ایک ارب 37 کڑور کی کل آبادی ہے،9596961 کیلومیٹر کے رقبہ پر مشمل ہے ،آئینی طور پریہ ایک ملحداور لامذہب ملک ہے یعنی سرکاری سطح پر اس ملک کا کوئی مذہب نہیں ہے،گلوپ انٹرنیشل نے لکھاہے کہ وہاں 61 فیصد سے زائد لوگ ملحد اور لامذہب ہیں،جبکہ 2012 میں کئے گئے ایک ریسرچ کے مطابق چین میں 90 فیصد لوگ کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے ہیں ،وہ ملحد اور لادین ہیں،بقیہ دس فیصد میں چھ فیصد بڈھسٹ ،دو فیصد عیسائی اور اتناہی مسلمان ہیں،اس کے علاوہ کچھ لوگ علاقائی چینی مذہب پر یقین رکھتے ہیں۔
چین میں دیگر مذاہب کے درمیان اسلام بھی روزاول سے موجود ہے ، سرکاری سطح پر جن55 قوموں کو اقلیت کا درجہ حاصل ہے ان میں مسلمان بھی شامل ہیں،ساتویں صدی عیسوی کے آغازمیں ہی حضرات صحابہ کرام وہاں اسلام لیکر پہونچ گئے تھے ، سب سے پہلے 616 عیسوی میں حضرت سعد بن ابی وقاص ،سید وہاب بن ابوقبصہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دعوت اسلام کے پیش نظر اس سرزمین پر قدم رکھاتھا،اموی دورحکومت میں مشہور جرنیل قتیبہ بن مسلم بھی ترکستان ہوتے ہوئے چین کی سرحد کے قریب پہونچ گئے اور ترکستان میں اسلامی فتوحات کا علم لہرانے کے بعد ان کی اگلی منزل چین تھی ، اس مشرقی ملک کو فتح کرنے کے جذبے سے مکمل طور پروہ سرشار تھے لیکن اسی دوران خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے فاتح اندلس طارق بن زیادہ اورفاتح سندھ محمد بن قاسم کے ساتھ فاتح ترکستان قتیبہ بن مسلم کو بھی دمشق طلب کرلیا اور یوں مشرق میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ یہیں پر رک گیا ، پھر کسی اور جرنیل کو یہ مہم آگے بڑھانے کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی، نہ ہی کوئی دوسری اسلامی فوج نے ادھر کا رخ کیا ۔
ترکستان کا یہ مشرقی صوبہ جسے سنکیانگ کہاجاتاہے ا ن دنوں چین کے قبضے میں ہے اورجس زمین پر حضرت قتیبہ بن مسلم نے اسلامی فتح ونصرت کا علم لہرایا تھا چین نے اسے غصب کرکے وہاں مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیاہے ،انہیں وہاں سے نیست و نابود کرنے کیلئے مسلسل جارحانہ اقدامات کئے جارہے ہیں، انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے اور مسلمانوں کی اپنی زمین خود ان پر تنگ کردی گئی ہے ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ترکستان شروع سے مسلمانوں کا ایک آزاد ملک رہاہے ، 1950 کے قریب وہاں 80 فیصد سے زائدے مسلم آبادی تھی، 1949 میں چین کی کمیونسٹ حکومت نے آزاد مشرقی ترکستان پر قبضہ کرکے اسے اپنے ملک کا ایک صوبہ بنا لیا اور اس کے بعد وہاں سے مسلمانوں کا وجود مٹانے کی کوشش شروع کردی ، سرکاری سرپرستی میں ایک طرف مسلمانوں کی تہذیب ثقافت ،رسم و روایات اور رہن سہن کو تبدیل کرنے کی مہم چلائی گئی، انہیں شعائر اسلام سے دورکرنے کوشش کی گئی ، تو دوسری طرف مسلمانوں کو اپنے ہی علاقے میں اقلیت میں تبدیل کرنے اور تعداد کم کرنے کیلئے کے لئے بڑی تعداد میں چینی باشندوں کو اس علاقے میں نقل مکانی پر آمادہ کیا گیا، انہیں مراعات دے کر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز کیا گیا، مسلمانوں سے زمین چھین کر انہیں مالک بنایا گیا ،مسلم آبادی کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا ، مختلف بہانہ بناکر ان کا قتل کیا گیا ،انہیں جیل کی سلاخوں میں ڈالاگیا، جبروتشدد کی راہ اپناکر انہیں وہ علاقہ خالی کرنے پر مجبور کیا گیا۔
چینی حکومت کے اس ظالمان اور جابرانہ اقدام کے خلاف مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ جب لبریز ہوگیا تو انہوں نے آواز اٹھانی شروع کی، ترکستان اسلامی پارٹی کے نام سے ایک تنظیم قائم کر کے آزادی کی تحریک چلائی اور چین سے علاحدہ ہونے کیلئے احتجاج ومظاہرہ کرنا شروع کردیا لیکن ان مظلوم مسلمانوں کی کبھی نہیں سنی جاتی ہے ،ان کے مطالبات پر اقوام متحدہ کبھی توجہ نہیں دیتی ہے،انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی چین میں ہونے والے یہ انسانیت سوز مظالم کبھی نظرنہیں آتی ہیں اور المیہ یہ ہے کہ مسلم ممالک بھی چین کے ان مظلوم مسلمانوں کی تسلی کیلئے کبھی بھی ایک دوجملہ نہیں بول پاتے ہیں ، چناں چہ65 سالوں کا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود یہاں کا یہ علاقہ آزادی حاصل کرنے سے محروم ہے،اپنی زمین میں اپنے خالق کو سجدہ کرنے پر جیل جانے کا مستحق ہوجاتاہے،وکی پیڈیا کے مطابق موجودہ دور میں سنکیاگ صوبے کی آبادی 22 ملین عوام پر مشتمل ہے جن میں مسلمانوں کی تعداد نصف سے بھی کم ہوگئی ہے جبکہ 49 میں یہی تعداد 80 فیصد سے زائد تھی۔
یہاں کے مسلمان ایغورنسل سے تعلق رکھتے ہیں،اپنے مسلمان ہونے اور اسلامی تہذیب وثقافت کو اپنانے پر فخر محسوس کرتے ہیں ،ہر طرح کا ظلم سہنے کے باوجود وہ اپنا حق حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں، آزاری کی تحریک چلارہے ہیں اوریہ کہ رہے ہیں کہ چین نے 1949 میں ناجائز طور پر مشرقی ترکستان پر قبضہ کیا تھا اس لئے انہیں علیحدہ ہونے کا حق حاصل ہے اور ان کی یہ جدوجہد جاری رہے گی ، حکومت کی ظالمانہ پالیسی اور مذہبی اعمال پر عائد ہونے والی پابندی ان کی راہ میں حائل نہیں ہوپائے گی ۔
چینی مسلمانوں کا یہ جذبہ لائق صد ستائش اور قابل فخر ہے ،لیکن المیہ یہ ہے کہ یہاں کے مسلمان بھی بے یار و مددگار اور تنہاہیں ،کوئی ان کے حق میں بولنے والا نہیں ہے ،کوئی ان کی فریاد سننے والا نہیں ہے ،مقامی میڈیا کے ساتھ عالمی میڈیا میں بھی کبھی سنکیانگ کے مظلوم مسلمانوں کی آواز بلندنہیں کی جاتی ہے ،چین کا قریبی دوست پاکستان بھی کھی چینی حکومت کے ان اقدامات کی مذمت نہیں کرتاہے اور نہ ہی اسے یہاں پامال ہونے والے انسانی حقوق نظر آتے ہیں۔عرب اور مسلم ممالک بھی چین کی اس ظالمانہ پالیسی کی کبھی مذمت نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی عالمی طاقتوں کو چین کا ظلم وستم اور انتہاء پسندانہ رویہ نظر آتاہے ، جبکہ سنکیانگ صوبے میں جو کچھ ہورہاہے وہ خلاف انسانیت، دہشت گردی اور عالمی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے ،اس صوبے پر چین کی دعویداری کے صحیح اور غلط ہونے سے قطع نظر شعائر اسلام اور مذہبی امور پر پابندی سب سے بدترین ،گھٹیا اور ظالمانہ فیصلہ ہے اور انتہاء پسندی ،تشدد اور نفرت وعداوت میں چین نے یورپ کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے کیوں کہ یورپ میں اب تک صرف برقعہ پر پابندی عائد کی گئی ہے لیکن مذہبی آزادی کے علمبر دار چین جیسے ملک میں اسلامی شعائر اور عبادات کی ادائیگی پر ہی پابندی عائد کردی گئی ہے جو اسلام کے خلاف حکومتِ چین کی واضح انتہاء پسندی ہے۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے سی ای اور ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE