غزل
یونہی دکھ ہو جاویں گے کم شہزادے
آ جا سکھ کے خواب بنین ہم شہزادے
اپنے ہوش گنوا بیٹھی ہوں پھر سے آج
سوچ رہی ہوں تجھ کو ہردم شہزادے
شہزادی کے خواب عذاب نہ کر جانا
ہو جاویں گی آنکھیں یہ نم شہزادے
میری روح میں تیری یاد اترتی ہے
ھولے ھولے مدھم مدھم شہزادے
ایسا سخت تکلم آخر کیوں، بولو؟
کیوں ہو اتنے برہم برہم شہزادے؟
شہزادے، کچھ اور نہ مانگے شہزادی
نکلے تیری بانہوں میں دم شہزادے
سارے پت جھڑ، اور بہاریں تیرے نام
میرا جیون، میرے موسم شہزادے
تجھ سے ہی مانوس ہوا سو تُو جانے
جگ نہ جانے دل کا عالم شہزادے
آنسو تجھ کو ڈھونڈیں ہیں دیوانہ وار
شہزادی کی آنکھیں ہیں نم، شہزادے
کب تک تنہا تنہا ٹوٹیں، بکھریں گے؟
روح میں روح کو ہونے دے ضم شہزادے
کب تک تنہا چُنتی جائے زخم رباب
رکھ میٹھے لفظوں کے مرہم شہزادے
فوزیہ رباب