جمشید اشرف، شیرگھاٹی، گیا
ماہ مقدس رمضان المبارک تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہے۔یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن جیسی عظیم الشان کتاب نازل ہوئی۔ایسی کتاب جو کائینات انسانی کے لئے سراپا رشد و ہدایت ہے۔یہ وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں بندوں کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے ۔ یہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے جسکا بدلہ جنت ہے۔
رمضان المبارک کا روزہ امت محمدیہ کے لئے ایک خصوصی انعام ہے۔روزہ روحانی تزکیہ ،تقوی وپرہیزگاری حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔اور اللہ تعالٰی کو تقوی کی زندگی ہی مطلوب ہے۔
رمضان المبارک خیر و برکت،رحمت اور مغفرت کا مہینہ ہے۔اس مہینے میں خدا کی رحمتیں اور برکتیں بارش کی طرح برستی ہیں۔اس متبرک مہینے کی عظمت میں بندوں کے نیکیوں کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے ۔حدیث کا مفہوم ہے کہ اگر کوئی شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے غیر فرض عبادت کرتا ہے یعنی سنت یا نفل وغیرہ پڑھتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کا ثواب فرضوں کے برابر عطا کرتا ہے۔ اور فرض ادا کرنے کا ثواب ستر فرضوں کے برابر عطا فرماتا ہے۔
یقینا ہمارے لئے نیکیاں کمانے کا اس سے بہترین موسم اور کیا ہو سکتا ہے؟ کہ ہمارے نفلوں کا ثواب فرضوں کے برابر اور فرضوں کا ثواب ستر فرضوں کے برابر مل رہا ہے۔قربان جائیے خدائے رحمان و رحیم کی ذات پر کہ اپنے بندوں کے لئے اپنی رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول کر رکھ دیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اپنے دامن میں نیک اعمال کے ذخیرے جمع کرنے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہو سکتا ؟ذرا غور کیجئے کہ اگر کوئی شخص فصل بونے کے موسم میں اس پہ محنت ہی نہ کرے تو فصل کاٹنے کے وقت وہ فصل پانے سے محروم رہ جائے گا۔ اسی طرح کمانے کے سیزن میں بھی محنت سے نہ کمائے تو وہ انسان مفلس و نادار ہو جائے گا اور اس کے اہل و عیال فقر و فاقہ کے شکار ہو جائیں گے۔جس طرح دنیوی کاروبار کا ایک سیزن ہوتا ہے اسی طرح رمضان المبارک مومنوں کے لئے نیک اعمال کمانے کا سیزن ہے جس میں ہر عمل کی قیمت اور دنوں کے مقابلے ستر گنا بڑھی ہوئی ہے۔
ہم دنیا میں معمولی نفع کی خاطر کتنی محنت و مشقت کرتے ہیں۔چند پیسوں کا نفع حاصل کرنے کے لئے دھوپ کی تمازت اور گرمی کی شدت برداشت کر لیتے ہیں۔بھوکا رہنا پڑے رہ لیتے ہیں۔راتوں کو جاگنا پڑے جاگ لیتے ہیں۔مگر آخرت کے اتنے بڑے فائدے اور منافع جس میں ایک کے بدلے ستر مل رہا ہے، اسے حاصل کرنے میں ہماری کوئ دلچسپی نہیں ہے۔یہ ہمارے لئے بڑی ہی محرومی اور بدنصیبی کی بات ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان کا مہینہ آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو خطاب فرمایا:
تمہارے پاس ماہ رمضان آ گیا۔یہ بڑی برکت والا مہینہ ہے۔اللہ نے اس کے روزے کو تم پر فرض کئے ہیں۔اس میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔دوزخ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں ۔اور شر کش شیاطین قید کر دئے جاتے ہیں۔اس میں اللہ کی ایک خاص رات(شب قدر) ہے جو ساری راتوں کی سردار ہے۔اس شب میں عبادت کرنے کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔جو کوئ شب قدر جیسی مقدس رات کی عبادت سے محروم رہ گیا وہ بہت ہی بدنصیب ہے۔(مفہوم حدیث)
اللہ تعالٰی نے مسلمانوں پر رمضان کے روزے فرض کئے اور کہا کہ جو شخص تم میں سے اس مہینہ کو پائے اس پر لازم ہے کہ پورے مہینے کا روزہ رکھے۔
حدیث قدسی میں اللہ تعالٰی کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ روزہ خالص میرے لئے ہے اور میں ہی اپنے ہاتھوں سے اس کا اجر دوں گا ۔کیوں کہ بندہ صرف میری ہی خاطر اپنی خواہشات نفسانی اور کھانے پینے کو چھوڑتا ہے۔
روزہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی چند گھنٹے مسلسل اپنی بنیادی اور انتہائی ضروری خواہشات پر قابو پاکر اللہ کے حکم کے تابع ہو جائے۔اور اسی کا نام تقوی ہے۔قرآن کریم کے اس جملے “لعلکم تتقون “سے یہی مراد ہے کہ انسان اس ایک ماہ کی روحانی و جسمانی تربیت کے ذریعے متقی اور پرہیزگار بن جائے۔
بڑے ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس ماہ مقدس کا احترام کرتے ہیں اور نیک اعمال کا اہتمام کرکے اپنے مولا کو راضی کر لیتے ہیں۔اور بڑے ہی بدنصیب ہیں وہ لوگ جو اس مبارک مہینے میں بھی غفلت برتتے ہیں۔اپنے قیمتی اوقات کو کھیل تماشے اور گانے بجانے میں گزار کر خدا کے غضب کا مستحق بن جاتے ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ اس مبارک مہینے کا احترام اور قدر کریں۔اپنے قیمتی اوقات کو ہرگز ادھر اُدھر، کھیل تماشے اور گانے بجانے میں ضائع نہ کریں۔بلکہ اسے اللہ کے ذکر ،قرآن کریم کی تلاوت، دعا ،توبہ و استغفار میں گزاریں۔دن میں روزہ رکھیں اور رات میں تراویح اہتمام کے ساتھ ادا کریں۔اس نیکیوں کے سیزن کو جان بوجھ کر برباد نہ کریں۔موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ سامان آخرت جمع کر لیں۔ہم میں سے کسی کو خبر نہیں کہ آئندہ رمضان ہمیں نصیب ہو کہ نہ ہو۔
اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں کو رمضان المبارک کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے۔اس کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفیض و مستفید فرمائے۔آمین