قاسم سید
رمضان المبارک کی خوبصورت ساعتوں میں یہ سوال چپکے سے سراٹھاتاہے کہ ہماری دعائوں میں کیا اثر نہیں رہا سجدے کرنے والے بڑھ گئے اوراد و و ظائف کرتے نہیں تھکتے ، صدقہ و خیرات کرنے والے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ صاحب استطاعت زکوٰۃ بھی نکالتے ہیں ،قطب الاقطاب بھی کہیں نہ کہیں موجود ہیں،چلہ کشی ہورہی ہے ۔ اللہ کی راہ میں تبلیغ کے لیے وقت دیتے ہیں ۔ ماہ رمضان میں روزے رکھنے والوں میں اضافہ ہورہا ہے مسجد یں نمازیوں سے بھری رہتی ہیں ،حج بھی کرتے ہیں عمرہ کاشمار کیا، وعظوں ،خطبوں میں سوزوگداز کی کیفیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں اللہ ہو کی ضربیں آسمان تک جاتی ہوں گی۔ اللہ سے اپنے گناہوں کی گڑگڑا کر آنسو ئوں سے بھیگے چہرے لیے معافی مانگتے ہیں۔ شب قدر میں اپنی نجات تلاش کرتے ہیں ،مسائل کے حل کے لیے جھولی پھیلاتے ہیں بھیگی سسکیوں کانذرانہ پیش کرتے ہیں روروکر حال دل سناتے ہیں ۔ ہم تو اللہ اور اس کے رسول کے سچے دل سے ماننے والے ہیں پھر بھی آزمائشوں کی دلدل میں کیوں دھنستے جارہے ہیں ، کیا دعائیں بھی روح سے خالی ہیں کیا ہم بدترین قسم کی منافقت میں تو مبتلا نہیں ہیں کیا صرف دعاؤں کے چپوسے طوفان میں پھنسی کشتی پار لگانا چاہتے ہیں دعائیں خودغرضی ومفاد پرستی کی کیچڑ میں لتھڑی ہوئی تونہیں ،کیا یہ بات سچ ہے کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں لیکن اللہ کی نہیں مانتے ۔ رسولؐکو مانتے ہیں رسول ؐ کی نہیں مانتے ہیں، قرآن کو مانتے ہیں قرآن کی نہیں مانتے ہیں ،صحابہ کرامؓ کو مانتے ہیں صحابہ کرامؓ کی نہیں مانتے، استاد کو مانتے ہیں استاد کی نہیں مانتے، والدین کو مانتے والدین کی نہیں مانتے، دعائیں کرتے ہیں مگر دعا کی قبولیت کے وسائل ساتھ نہیں ہوتے ہیں ۔ اللہ کے حضور مناجات کرتےہیں مناجات سے قبل کئے جانے والے کام نہیں کرتے، صرف دعائوں کے سہارے زندگی کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں ،اللہ و رسولﷺ کے احکامات کامذاق اڑانے سے گریز نہیں ،قدم قدم پر نافرمانیاں ،حکم عدولیاں ،سرتابیاں ،سرکشیاں بداعمالیاں بے ادبیاں اور پھر جملہ حقوق اپنے نام رکھنے کی خواہش ۔تاریخ نے انہیں لوگوں کو ماتھے کا جھومر بنایاہے جو اس کو زیر کرنے کے لیے پہلے بھرپور وسائل مہیا کرتے ہیں اور اس کے بعد معاملہ رب کے حوالہ کرتے ہیں۔
فرانسیسی کمانڈر ژواین ویل نے 13ویں صدی میں ہلال وصلیب کے ایک معرکہ کی سرگزشت بیان کی ہے جو آنکھیں کھولنے والی ہے یہ وہ وقت تھا جب مسیحی دعاؤں سے اور مسلمان جدید وسائل سےلیس ہوا کرتے تھے ایک لڑائی کے دوران جب مصری فوج نے منجنیقوں سے آگ برسانی شروع کی تو فرانسیسی حیران و پریشان تھے کہ کیا کریں اور بچنے کا کونسا طریقہ اپنائیںژاوین کے مطابق لارڈو الٹر ایک اچھا نائٹ تھا اس نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں زندگی کا سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے اگران بر جیوں کو نہ چھوڑا اور مسلمانوں نے ان میں آگ لگادی تو ہم جل کر مرجائیں گے ان برجیوں کو چھوڑتے ہیں تو اس سے ہماری بڑی بے عزتی ہوگی ایسی حالت سے صرف خداہی بچا سکتا ہے۔ میرامشورہ ہے کہ جیسے ہی مسلمان فوجی آگ کے گولہ پھینکیں آپ سب گھٹنوں کے بل جھک جائیں اپنے نجات دہندہ خداوند سے دعامانگیں کہ وہ اس مصیبت میں ہماری مدد کرے۔
اس نے فرانسیسی بادشا ہ لوئس کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ جب منجیق سے آگ کے گولے پھینکے جانے کے بعد سپاہیوں کی چیخ وپکار سنائی دیتی تو ہماراولی صفت بادشاہ روتے ہوئے دست دعا بلند کرتا کہ خدائے مہربان میرے آدمیوں کی حفاظت فرما،اس جنگ کا نتیجہ کیاہوا،خدانے کس کی مدد کی کون جیتا یہ کھلارازہے۔
اس کے بعد زمانہ نے کروٹ لی، یوروپ نے سبق سیکھا جہالت سے باہرآیا ۔ ضعیف الاعتقادی ترک کرکے معقولیت وحقیقت پسندی کا راستہ پکڑا جبکہ طاؤس و رہاب کی مستیوں میں ڈوبے مسلمان ایام زوال میں دواکی بجائے صرف دعا پر بھروسہ کرنے لگے۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر کتنا بھی اچھا ہوا اگروہ مریض کی سنگین کیفیت دیکھ کر دعا کرنے کا مشورہ دے اور دوا دینے کی ضرورت نہ سمجھے تو مریض کا کیا حشر ہوگا ۔ اٹھارہویں صدی میں جب نپولین نے مصر پر یلغار کی تو مسلمانوں کے فرمانروا مراد بک نے تمام علمائے کرام کو جامع ازہر میں جمع کیا اور ان سے مشورہ کیا کہ دشمن کے حملہ سے بچنے کے لیے کیادفاعی حکمت عملی اختیار کی جائے ۔ تمام جیدعلمائے کرام نے متفقہ رائے دی کہ صحیح بخاری کاختم کراناچاہئے چنانچہ خوش الحان صحیح بخاری کا ورد کررہے تھے۔ ختم پاک کی تقریب مسعود ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ نپولین کی فوجیں شہرمیںداخل ہوگئیں۔ شیخ عبدالرحمٰن الجبرتی کے مطابق اہرام کی لڑائی کے بعد انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کر رکھا تھا توامیر بخارا نے رعایا کو دشمن کامقابلہ کرنے کے لیے باہر نکلنے کی بجائے شاہی فرمان جاری کیا کہ مدارس ومساجد میں ختم خواجگان کااہتمام کیاجائے تاکہ ملک پر حملہ آور بلائیں دفع ہوجائیں جیسے جیسے روسیوں کی قلعہ شکن توپوں کی گھن گرج میں اضافہ ہوا ختم خواجگان کے لیے جمع ہونے والوں کی آوازیں بلند ہوتی گئیں لیکن مشینوں کی اس جنگ میں کون ہارا اور فتح کس کا مقدر بنی بتانے کی ضرورت نہیں۔
بغداد میں بھی یہی ہوا جب چنگیزخان کی افواج بغداد کے دروازے پر دستک دے رہی تھیں علمائے کرام لایعنی فقہی موشگافیوں سے ایک دوسرے کا سرپھوڑ ے رہتے تھے۔ خلیفہ کوخان کے حضور ہتھکڑیوں میں پیش کیاگیاتو اس نے سونے واشرفی کی تھالوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اگر تو نے یہ دنیا جمع نہ کی ہوتی تو ہم آج یہاں نہیں ہوتے پھر اسے ہاتھیوں سے کچلنے کاحکم دیا۔ ایسے بہت سارے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے جنگیں صرف دعائوں کے سہارے نہیں جیتی جاتیں اور نہ ہی بدعاؤں اور کوسنوں سے توپوں میں کیڑے پڑتے ہیں۔ دعائیں ڈھال بنتی ہیں پہلے مریض کو مطلوبہ دوادی جاتی ہے اسے بیماری سے نجات دلانے کی تراکیب آزمائی جاتی ہیں اورپھر دعائوں کا سہارا لیاجاتا ہے ۔ حضور اکرم ؐ نے میدان بدرمیں ساری حربی و افرادی قوت جمع کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا فرمائی ۔اللہ تعالیٰ نے غیب سے مدد فرمائی اور فتح مسلمانوں کو ملی۔ موجودہ حالات سے ہر شخص تشویش میں مبتلا ہے صرف ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں اسلام اور مسلمان نشانے پر ہیں اور دفاعی پوزیشن میں ہیں ایسا لگتا ہے کہ دسترخوان بچھاہے اور بھوکوں کی یلغارہے سب بری طرح ٹوٹ پڑے ہیں ۔ مال غنیمت ہے کہ لوٹ مار مچی ہے جو جتنا چاہے مار دیتا ہے اور بعد میں اظہار معذرت بھی کردیتا ہے کہیں القاعدہ کے نام سے تو کہیں آئی ایس کے حوالہ سے مارنےاورمرنے والے دونوں کلمہ گوکہے جاتے ہیں ایک بحث ختم نہیں ہوتی کہ دوسری شروع ہوجاتی ہے ۔ مظلومین کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے ۔ مذہبی ومسلکی تعصب کسی بہتر سوچ کے لائق نہیں چھوڑتا ،بے یقینی ،بے ثباتی ،تشکیک ابہاما ت ،تضاوات ہرمعاملہ میں وہم وظن ،التباس اور اختلاف کی صورتیں تلاش کرلی جاتی ہیں ۔ مثلاً ایک نشست میں تین طلاق کی بحث سے نجات ملی تو تراویح 8ہوتی ہیں یا بیس پر معرکہ آرائی شروع ہوگئی دونوں حق پر ہیں اور دونوں کے پاس بھاری بھرکم دلائل ، دونوں کا قرآن وحدیث سے استدلال یعنی دین فروعات میں الجھ گیا اور اصل دین پس پشت چلاگیا جنگ و جدال نہ ہوتو اس کے بہانے تلاش کرلیے جاتے ہیں جب کسی کے پاس مثبت مشعلہ نہ ہو تو ایسے مشاغل ڈھونڈ لیتا ہے ،اقتدار کا خمار، مقبولیت کی انتہا، ناموری کا جنون اور چاہے جانے کی خواہش نے ذاتی پرخاش کینہ وبغض مفادات اور جماعتی تعصبات جیسے اوصاف نے امت کو نیم جاں کردیا ہے۔ قرآن نے کامیابی کا واضح تصور پیش کردیا ہے اس میں کوئی قیل قال نہیں ۔ انتم الاعلون ان کنتم مومنین ’’تم ہی سر بلند رہوگے اگر تم مومن ہو یعنی سربلندی اور اقتدار کے لیے مومن ہونا ضروری ہے ۔کبوتر کو باز کے گھونسلہ میں رکھ کر اس میں با ز کی صفات پیدا نہیں ہوسکتیں اس لیے جب بھی اللہ کے حکم سے بغاوت کریں گے ذلیل و رسوا ہوں گے ۔ ناکامی ونامردای مقدر ہوگی ۔ صرف اس کا نام لینا اس کی وفاداری کا دم بھرنا کافی نہیں ۔ اللہ اور اس کے رسول ؐ کو ماننے کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی ماننی ہوگی اور صرف زبان سے ورد کرنا اور دعویٰ کرناہی کافی نہیں ہے عملی زندگی سے ثابت کرناہوگا ورنہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے وہ اپنے دین کے غلبہ کے لیے دوسری قوم و گروہ تلاش کرلے گا ۔ کاش ماہ رمضان بھولے سبق کو یاد کرادے۔
qasimsyed2008@gmail.com