قطر کے خلاف سعودی اقدامات :اسباب و جوہات

 پس آئینہ : شمس تبریز قاسمی
قطر دنیا کی ایک اہم ترین ریاست ہے ،عرب لیگ، اقوام متحدہ، تنظیم تعاون اسلامی اور مجلس تعاون برائے خلیجی عرب ممالک کا رکن ہے ،معاشی طور پر دنیا کا مضبوط ترین ملک کہلاتاہے ،وافر مقدار میں تیل اور گیس کا ذخیرہ اس کے پا س موجودہے،خلیج فارس میں واقع اس ملک کا تین جانب سے سمندر نے احاطہ کررکھاہے،ایک جانب اس کی سرحدیں سعودی عرب سے ملتی ہیں،11586کیلومیٹر کے رقبہ پریہ ریاست مشتمل ہے ،یہاں کی کل آباد ی 27 لاکھ ہے جس میں88 فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے، یعنی قطر کی اصل آباد صرف تین لاکھ ہے ،دوسرے لفظوں میں یوں کہ سکتے ہیں کہ قطر دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں کی عوام اپنے ملک میں اقلیت میں ہے ،اس کے علاوہ25 فیصد ہندوستانی ،10 فیصد بنگلہ دیشی ،5 فیصد سری لنکائی ، 4فیصد پاکستانی اور 52 فیصد دیگر ممالک کے لوگ رہتے ہیں، وہاں 68 فیصد مسلمانوں کے ساتھ ،14 فیصد عیسائی ،14 فیصد ہندو اور تین فیصد بڈھست رہائش پذیر ہیں۔
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے ،عالمی سطح پر قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے، یہ ملک فاکس ویگن کمپنی میں 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے، قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے، فی کس آمدنی کے اعتبار سے یہ دنیا کا سب سے امیر ترین ملک ہے ، 2022 میں قطرپہلی عرب ریاست کے طور عالمی فٹ بال میچ کی میزبانی کرنے جارہاہے جس کے لیے یہ خلیجی ریاست انفراسٹرکچر کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمہ بعد 1916 میں یہ ملک برطانیہ کے زیر انتظام آگیا،1971 میں جب برطانیہ کے تسلط سے عرب ریاستوں کو آزادی ملنی شروع ہوئی تو قطر نے متحدہ عرب امارات سے خود علاحدہ ایک آزاد عرب اسٹیٹ کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی ، اسلامی قوانین کو ملکی آئین کا حصہ بنایا،عالمی سطح پر ایک نمایاں مقام حاصل کیا ،خلیجی ریاستوں کے ساتھ عالمی ممالک سے بہتر تعلقا ت قائم کیا ،یہاں تک کہ امریکہ اور اسرائیل سے بھی قطر کے اچھے تعلقات ہیں ،امریکی فوج قطر میں موجود ہے ،ان سب کے ساتھ قطرنے ہمیشہ اسلام پسندوں اور مظلوم فلسطینیوں کی مدد کی ہے ،مشرق وسطی میں امریکہ اور اسرائیلی کی مخالفت کے باوجود قطر حماس کا معاون رہا ہے ،اخوان المسلمین کو شروع سے قطر کی اخلاقی حمایت حاصل ہے ،حسنی مبارک کے دور میں جب مصر کی سرزمین پر اخوانیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ،اخوانی علماء کو پھانسی دی گئی تو ایسے وقت میں قطر نے اخوانیوں کا استقبال کیا ،اپنے یہاں پناہ دی جن میں عالم اسلام کے عظیم اسکالر اور فقیہ علامہ یوسف القرضاوی بھی شامل ہیں جو گذشتہ چالیس سالوں سے قطر میں مقیم ہیں،2013 میں جب مصر میں جمہوری طور منتخب اخوان حکومت کا تختہ پلٹاگیا ،سعودی فرماں روامرحوم شاہ عبداللہ نے مرسی کی جمہوری حکومت ختم کرکے السیسی کو ایوان اقتدارتک پہونچانے کیلئے کڑوروں ریال کو پانی میں بہایا تو اس وقت بھی قطر نے تن تنہا اخوان کی اخلاقی مدد کی ۔

https://www.youtube.com/watch?v=0YbWwmE9WvU


اخوان اور حماس کوقطر کی جانب سے ملنی والی یہ اخلاقی مدد سعودی عرب کیلئے شروع سے ناقابل برداشت رہی ہے ،ماضی میں بھی سعودی عرب نے اسلام پسندوں سے قطر کو تعلق ختم کرنے کی ہدایت دی تھی، اخوان اور حماس کی مددنہ کرنے کی اپیل کی تھی ؛ لیکن قطر نے کسی دباؤ میں آئے بغیر اخوان اور اس جیسی انقلابی تحریکات سے اپنی اخلاقی حمایت واپس نہیں لی،ان وجوہات کی بنا پربارہا دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات میں تلخیاں محسوس کی گئیں، 2002 سے 2008 قطر میں سعودی عرب نے اپنا سفیر نہیں بھیجا ،لیکن ان سب کے باوجود رشتوں میں اتنی تلخی نہیں آئی تھی ،سرحدیں سیل نہیں کی گئی تھیں،سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات نے کبھی اس طرح کا رویہ نہیں اپنایاتھا ،سعودی عرب سے اس طرح کی دھمکیاں نہیں ملی تھیں،اس لئے 5 جون کی صبح جو کچھ ہوا پوری دنیا اس پر انگشت بدنداں ہوگئی ،اس دن سعودی عرب نے قطر سے صرف سفارتی تعلق ختم نہیں کیا ،بلکہ سرحدیں بندکردی ،بری ،بحری اور فضائی ٹریفک منقطع کردیا،قطر ایئر ویز کا لائنسس منسوخ کردیا، فضائی راستوں سے گزرنے پر پا بندی عائد کردی ،فوڈ کی سپلائی روک دی،سعودی میں واقع الجزیرہ کا دفتر سیل کردیاگیا،دس منٹ کے دورانیے میں متحدہ عرب امارات ،مصر اور بحرین نے بھی سفارتی تعلقات کے خاتمہ کا اعلان کرکے ہر طرح کے رشتوں پر بندش لگادی ،قطری سفارت خانہ کو 48 گھنٹے میں ملک چھوڑدینے کا حکم جار ی کردیا ،شہریوں کو بھی دوہفتہ میں نکل جانے کیلئے کہاگیا،سلسلہ یہیں پر نہیں رکا بلکہ اس کے بعد سعودی عرب نے اپنے تمام اتحادیوں سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی اپیل کی لیکن اس اپیل پر صرف مالدیپ اور لیبیا کے ایک دھرے کی حکومت نے لبیک کہا۔
قطر کے خلاف سعودی عرب نے اپنے اس جارحانہ اقدام کی وجہ اخوان ،حماس کی حمایت اور ایران سے تعلق کو بتایاہے لیکن ٹرمپ نے ٹوئٹ کرکے خودہی ان حقائق سے پردہ اٹھادیاہے جس کے اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے،ٹرمپ کے بقول ’’سعودی عرب نے قطر کے خلاف یہ سب ہمارے کہنے پر کیا ہے ،قطر پر پابندی اسلامی انتہاء پسندی کے خلاف جنگ کی ابتداء ثابت ہوگی،ٹرمپ نے اس بات پربھی اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ سعودی عرب ان کے پڑھائے ہوئے سبق پرعمل پیراہے ،مشرق وسطی میں ان کے دورے کا اثر نظر آرہاہے‘‘۔
ا خوان المسلمین مشرق وسطی میں ایک منظم ،مضبوط اور امن پسند جماعت ہے ،جمہوریت پر یقینی رکھتی ہے ،تشدد سے دور تک اس کاکوئی واسطہ نہیں ہے ،2012 کے عرب بہاریہ میں جب مصر میں حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ ہواتو اخوان المسلمین جمہوری طور پر منتخب ہوکر آئی ،محمد مرسی صدر بنائے گئے انہوں نے عالم اسلام کومتحد کرنے اور قرآن کے نظام کو نافذکرنے کی تحریک چلائی ،اقوام متحدہ کے اجلاس میں کہاکہ جو ’’ہمارے اللہ اور ہمارے رسول کا دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے ‘‘محمد مرسی کایہ جملہ امریکہ کو بردشت نہیں ہوسکا،اخوان کی حکومت انہیں مقاصدکی راہ میں رکاوٹ نظر آنے لگی ،یہ خدشہ ستانے لگا کہ محمد مرسی عالم اسلام کو متحدکرسکتے ہیں،مشرق وسطی سے انہیں بے دخل ہونا پڑسکتاہے اس لئے اخوان کی جمہوری حکومت کا تختہ پلٹنے کی منصوبہ بندی کی گئی ،سعودی عرب کو یہ ذمہ داری سونپی گئی جسے شاہ عبد اللہ نے بحسن وخوبی انجام دیا ،جمہوریت کے علمبردار امریکہ نے جمہوریت کا گلاگھونٹنے کیلئے کسی کی مذمت نہیں کی ،سعودی عرب نے اس کے بعد کابینہ کی میٹنگ طلب کرکے اخوان المسلمین اورحماس کو دہشت گرد تنظیم نامزدکردیا ،ان حالات میں قطر نے کھل کر اخوان کا ساتھ دیا ،سعودی عرب کی مخالفت کے باوجود قطر اپنے موقف پر اٹل رہا،مصر کے بعد اخوانیوں کا اس وقت ٹھکانہ قطر ہے اس لئے امریکہ نے اب قطر کو نشانہ بنانے کا حکم جاری کیا جسے سعودی فرماں روں بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں ،شاہ سلمان کے ایک قریبی اس سے پہلے امیر قطر کو یہ دھمکی د ے چکے ہیں کہ اخوان کی حمایت سے باز آجاؤ،سعودی کی بات مان لو ورنہ مرسی جیسا حشر کردیں گے ۔
قطر سے سفارتی تعلقات کے خاتمہ کی ایک وجہ ایران سے قربت بھی بتلائی جارہی ہے جس میں کوئی سچائی نظر نہیں آرہی ہے ،محض سنی مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے اسے ایشو بنایاجارہاہے ،اگر ایران سے تعلق رکھنے کی بناپر قطر کا بائیکاٹ کیا گیاہے تو پہلے سعودی سمیت تمام ممالک کو ایران سے اپنا رشتہ ختم کرنا چاہیئے لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے،ٹرمپ نے اپنی تقریر میں ایران کو الگ تھلگ کرنے کی اپیل کی تھی لیکن اس پر بھی عمل نہیں ہورہاہے ،ایران سے قطر کی قربت کی وجہ بھی سعودی عرب کی دھاندلی اور قطر پر اپنی پالیسی تھوپنی کی کوشش ہے ،اس کے علاوہ متعدد ایسے ممالک ہیں جن کے تعلقات ایرا ن اور سعودی عرب دونوں سے ہیں اور وہ سعودی احسانات کے مقروض ہونے کے باوجود تہران کے خلاف ایکشن نہیں لے سکتے ہیں ، خود سعودی عرب نے ہمیشہ ایرن سے بہتر رشتہ بنانے کی کوشش کی ہے ،ان دنوں سوشل میڈیا پر سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا ایک ٹوئٹ بھی گردش کررہاہے جس میں انہوں نے ایران کو اسلامی ،تاریخی اور اہم پڑوسی ملک قراردیتے ہوئے بہتر رشتہ بنانے کی خواہش ظاہر کی ہے ،عادل الجبیر کا تازہ بیان بھی یہی بتلارہاہے کہ قطر کے بائیکاٹ کی وجہ ایران نہیں ہے جس میں وہ کہ رہے ہیں کہ قطر اخوان اور حماس کی حمایت کرنابند کردے ورنہ دیگر خلیجی ممالک کی جانب سے بھی پابندیاں عائد کردی جائیں گی ۔دوسری بات یہ کہ سعودی عرب اور ایران روایتی حریف ہیں ،دونوں کے درمیان رشتے ہمیشہ بنتے بگڑتے رہتے ہیں ،خطے میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کیلئے دونوں مسلسل کوشاں ہیں ،ایران نے شام میں مداخلت کرکے بشارالااسد کو دوبارہ مضبوط کردیاہے ،یمن میں حوثی ملیشیا کے قدم مسلسل بڑھتے جارہے ہیں،دوسری جانب سعودی اتحاد ملیشاؤں کو شکست دینے میں ناکام ہے ،شام کے جلتے دن ورات کو بجھانے کیلئے سعودی نے کبھی اس جانب رخ نہیں کیا ہے ،فلسطین ،لیبیا ،برما سمیت کسی بھی ملک میں مظلوم مسلمانوں کی سعودی نے سیاسی اور سفارتی سطح پر کوئی مدد نہیں کی ہے۔داعش کے خلاف اب تک سعودی اور امریکہ نے کوئی موثر کن جنگ نہیں لڑی ہے ،لیکن اخوان کے خلاف سعودی اقدام مسلسل جاری ہے ، اسلام پسندوں اور اسلام کا سیاسی نظام نافذ کرنے والوں کو دہشت گرد گردانا جارہاہے ،انہیں بھی نشانہ بنایا جارہاہے جن کا اخوان سے تعلق ہے اور سرپرستی امریکہ کررہاہے ، اسرائیل ان اقدامات کی تعریف کررہاہے ،اسلام دشمن عناصر اس کی سراہنا کررہے ہیں تو مطلب واضح ہے کہ یہاں دال میں کچھ کالانہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔
عرب اسلامی ۔امریکہ سربراہ کانفرنس میں پچاس سے زائد مسلم ممالک کے سربراہوں کے سامنے ٹرمپ نے کئی بار اسلامی انتہاء پسندی اور اسلامی دہشت گرد ی جیسے الفاظ کا استعمال کیا ،ٹرمپ نے مرکز اعتد ال برائے انسداد انتہاء پسندی کا افتتاح کیا، اخوان المسلمین اور حماس کا نام لیکر ٹرمپ نے واضح کردیا کہ وہ اخوان المسلمین اور حماس جیسی فکر اور تحریک کے خلاف ہیں،وہ اسلامی مزاج اور دینی ذہینت کا خاتمہ چاہتے ہیں ،اسلام کے سیاسی نظام کو بروئے کارلانے والی تنظیموں اور معاونین کاتعلق دہشت گردی سے جوڑ کر اسے ناپیدکرنا چاہتے ہیں ،وہ روئے زمین سے ان جماعتوں کو کالعدم کرنا چاہتے ہیں جن کا مشن اسلام کی سربلندی ،امریکی تسلط سے آزادی، آپسی اتحاد کا فروغ اور عالم اسلام کی خود مختاری ہے ،مصر کی اخوان حکومت کے خاتمہ کے بعد ایسی ذہنیت کے حامل افراد قطر میں موجود ہیں ،اس لئے اب قطر کو نشانہ بنایاگیا ہے ،دوسری طرف ترکی کو کئی سالوں اسلامی افکار کو پروان چڑھانے کی پاداش میں پریشان کیا جارہاہے ۔یہاں قارئین کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوسکتاہے کہ شاہ عبد اللہ نے امریکی اشارے پر اخوان پر پابندیاں عائد کی تھیں لیکن شاہ سلمان اس سے مختلف تھے ،انہوں نے امریکی حکمرانوں کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دی تھی پھر ایسا کیا ہواکہ شاہ سلمان بھی اسی ڈگر پر چل پڑے ؟ تفصیل اگلے کالم میں ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com