محمد نافع عارفی
ناظم معہدالولی الاسلامی ہرسنگھ پور دربھنگہ
لیجیے بد دماغ امریکی صدر ٹرپ کے سعودی دورے کے ثمرات نظر آنے لگے، جس کا اندیشہ تھا وہی ہوا، خدمت حرمین شریفین اور حکومت الہی کا خوشنما نعرہ لگانے والے آل سعود کے جرائم میں ایک اور باب کا اضافہ ہو چکا ہے، نہ جانے اس باب کا آخری ورق کتنے معصوم مسلمانوں کے خون سے تحریر کیا جائے گا، یا پھر رحیم وکریم اورستا رخدا کی قہاری وجباری جوش میں آئے گی اور خون مسلم کےرگین سمندر میں آل سعود کی کشتی ہمیشہ کے لیے ڈبو دی جائے گی –
گزشتہ ماہ امریکی صدر ٹرنپ کی صدارت میں ریاض کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں پچاس مسلم ملک کے سربراہان حضرت ٹرنپ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوئے، امریکی صدر نے ان بے ضمیر وں کو خوب کھڑی کھڑی سنائی اور عیسائیوں، یہودیوں کی پارسائی پر ایمان لانے حکم صادر فرماتے تمام برائیوں اور دہشت گردی کا منبع امت مسلمہ کو قرار دیا، نیز یہ فتوی بھی صادر فرمادیا کہ اسرائیل انسانیت نواز اور پارسا ریاست ہے جس کے تقدس پر ایمان لانا دنیا میں بسنے والے ہر انسان کا بنیادی فریضہ ہے، اس لئے کسی ریاست، تنظیم یا کسی فرد کو اسرائیل پر انگشت نمائ کا حق حاصل نہیں ہے. اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو انسانیت کا دشمن اور دہشت گردہے، ایسی کسی تنظیم یا ملک کو دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے، ٹرنپ کے ارشادات کے بعد شاہ سلمان کی قیادت میں بے ایمانوں اور بے ضمیر ملت فروشوں نے سمع وطاعت کاوعدہ کیا، پھر امریکی اشارے پر ناچنے والے ان ذلیل رہنماؤں نے ٹرنپ کے ساتھ شمشیر برہنہ لے کر ڈانس کیا جو اس بات کا عندیہ تھا جو زبان اسرائیل کے خلاف بولے گی وہ زبان تراش دی جائے گی ، جو ہاتھ اس پر اٹھیں گے وہ کاٹ دیے جائیں گے جو ریاست اس کے خلاف محاذ آرا ہوگی اس کا وجود دنیا کے نقشے سے مٹا دیا جائے گا-اس ڈرامے کے بعد ٹرنپ کا طیارہ 460 ملین ڈالر کے بھاری بھر کم تحائف کے ساتھ ریاض سے اڑا تل أبيب پہنچا اور اسرائیل کے قدموں پر 300 ملین ڈالر کانذرانہ نچھاور کردیا گیا،ساتھ ہی امت مسلمہ کی آبرو بھی اسرائیل کے قدموں میں ڈال دی گئ-
قطر خلیج کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس کی آبادی تقریباً 25 لاکھ ہے، جن میں بڑی تعداد غیر قطر یوں کی بھی ہے جو بغرض ملازمت یہاں آباد ہیں، خلیج کی اس خوبصورت اور ترقی یافتہ ملک میں آل ثانی کی حکومت ہے،قطر اپنے رفاہی، اورملی کاموں نیز ملت اسلامیہ کے ساتھ شدید وابستگی کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل میں ایک خاص مقام رکھتا ہے، امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی قبلہ اول مسجد اقصٰی کی آزادی اور حماس کے شیر دل مجاہدین کی کھل کر حمایت کرتے رہے ہیں، اخوان المسلمین سے بھی ان کے گہرے روابط ہیں اورمتعدد اخوانی رہنماؤں کو انہوں نے پناہ دے رکھی ہے، جن میں امام یوسف قرضاوی کا نام سر فہرست ہے-
قطر کا گناہ اور عظیم جرم مسجد اقصٰی اور فلسطین کی آزادی کے لیے بر سر پیکار مجاہدین اسلام کی جماعت الحركة المقاومة الإسلامية (حماس) اور دین حنیف کی حفاظت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے والی جماعت اخوان المسلمين کی حمایت اور مالی مدد ہے، حماس اور اخوان المسلمین کی تاریخ دعوت وجہاد سے عبارت ہے، یہی حماس کے مجاہدین ہیں جنہوں نے اسرائیل جارحیت اور ظلم کا دندان شکن جواب دیا اور اسرائیل کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کر رکھا ہے ، اگر حماس کے قسامی مجاہدین نے اسرائیلی بر بربریت سے پنجہ آزمائی نہ کی ہوتی تو بہت پہلے ہی قبلہ اول کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہوتی اور معراج نبوی صل اللہ علیہ و سلم کی سرزمین سے اہل توحید کا اخراج ہوچکا ہوتا، فلسطین کے زرے زرے پر ناپاک صہیونی ریاست پھیل چکی ہوتی؛ ہاں ممکن تھامحمود عباس اور فتح کے بعض اراکین کو ملت فروشی کے عوض چند لولی پوپی عہدے مل جاتے-2014 میں اسی حماس کے مجاہدین نے رمضان المبارک میں جنگ بدر کی یاد تازہ کر دی تھی اور50دن تک جاری رہنے والی جنگ میں اسرائیل کو سکشت کا منھ دیکھنا پڑا تھا؛ جنگ کے اختتام پر اسرائیل کو اپنے فوجیوں کی لاشیں کندھوں پر اٹھا نی پڑی تھی اور اسرائیل پر خوف ہراس طاری تھا، شیخ احمد یاسین شہید نے 1978 میں حماس کی بنیاد رکھی تھی ؛ جس کا مقصد ہی قبلہ اول اور ارض مقدس کی آزادی ہے، حماس نے جمہوری طریقے سے 2006/7میں ہونےوالے انتخابات میں حصہ لیا اور شاندار فتح حاصل کی؛ لیکن امریکی اشارے پر محمود عباس نے حماس کو حکومت سازی کا موقع نہیں دیا، نتیجتاً فلسطین دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، غزہ پٹی پر حماس نے اپنی حکومت قائم کر لی، اسی دن سے حماس کے گرد گھیرا تنگ کر نے کی کوشش کی جانے لگی اور غزہ پر صہیونی ریاست اسرائیل اور اس کے چمچوں نے یلغار کردیا، غزہ کی ناکہ بندی کی گئی اور وہاں کے لوگوں کو بدترین زندگی جینے پر مجبور کر دیا گیا، لیکن سلام ہو ان جیالوں پر؛ جنہوں نے ثابت کر دیا کہ اسلام کے مقابلے زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے، اصل زندگی تو آخر ت کی زندگی ہے اور شہادت کی موت ذلت کی زندگی سے ہزار ہا درجہ بہتر ہے-
یہاں ہمارے لئے یہاں حماس کی تاریخ جہاد وعزیمت کے تفصیلی ذکر کا موقع نہیں وہ کسی مستقل مضمون میں کبھی بیان کیا جائے گا، بحر حال 2012 میں مصر کے پہلے جمہوری طور پرمنتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسى کی قیادت میں اخوان المسلمین کی حکومت قائم ہوئی؛ جس نے عام انتخابات میں 51%زائد ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی، تو مرسی نےغزہ کے لیے اپنی سر حدیں کھول دیں اور اسلامی حمیت وغیرت کا ثبوت دیتے ہوئے حماس کے ساتھ مصر کے رشتے استوار کیے اور اسرائیل کے خلاف حماس کی کھل کر حمایت کی یہی بات اسرائیل اور امریکہ کو ناگوار گزری اور صہیونی آقا کےاشارے پر شاہ عبداللہ نے ظالم بدکردار سفاک سیسی کے ساتھ ساٹھ گانٹھ کیا اور مرسی کی قانونی طور پر منتخب حکومت کی بساط الٹ دی، جس کے لئے آل سعود کے ظالموں نے پیسہ پانی کی طرح بہایا، اور چن چن کر اخوانی قیادت زیر زمین کال کو ٹیو ں میں ٹھوس دیا گیا، سعودی عرب قطر پر اخوان اور حماس کے تعاون سے دستبردار ہونے کا دباؤ پہلے بھی ڈالتا رہا ہے، اس پہلے بھی دونوں ممالک کے رشتوں میں تلخیاں آتی رہی ہیں لیکن اس طر ح کی ناکہ بندی کبھی نہیں کی گئی؛ چونکہ اس بار امیر الشياطين ٹرنپ کا فرمان آیا جو سعودی اور اماراتی بادشاہوں کے لیے وحی الہی سے بھی بڑھ کر ہے اس لیے فورا ہی تعمیل حکم کیا گیا اور قطرکو قبلہ اول سے محبت کی سزا سنا دی گئی-
اگر قبلہ اول کی آزادی و حفاظت اور اپنے ملک کی خودمختاری کے لئیے جہاد کر نا دہشتگردی ہے تو ہمیں ان دہشت گردوں پر فخر ہے، اگر مسجد اقصٰی کے لیے جان نچھاور کرنا دہشتگردی ہے تو اس مت کے ہرفرد کو دہشت گرد ہونا چاہیے-
قطر کادوسرا جرم یہ ہے کہ اس نے سعودی اورامارات کے آقا کوجزیہ دینے سے انکار کر دیا، اور اپنے دین وایمان اور اسلامی حمیت کا سودا نہیں کیا، جس کی قیمت قطر اور امیر قطر چکانی پڑ رہی ہے، افسوس کہ رابطہ عالم اسلامی کے علماء اور دانشوروں نے بھی بےضمیر ایمان فروش ازہر کے سرکاری علماء کی طرح اپنی حکومت کی اس ذلیل حرکت کو قانونی اور شرعی جواز فراہم کردیا ہے؛ حالانکہ انہیں خوب معلوم ہے کہ “یہود و نصاری تم سے ہرگز ہرگز راضی نہیں ہو سکتے ہیں یہاں تک آپ ان کے مذہب کی پیروی نہ کرنے لگیں” عجب نہیں کہ آل سعود ایسا کرہی لیں، ممکن ہیکہ کل کو اپنے صہیونی آقا کے حکم پر یہ سعودی عرب اور اس کے ہمنوا ایک قرارداد منظور کریں جس میں صلاح الدین ایوبی اور ان تمام بزرگوں کو دہشت گرد قرار دے دیا جائے جنہوں نے قبلہ اول کی فتح کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا،
امید ہے کہ قطر اس ناکہ بندی کا ہمت مردانہ اور حکمت مومنانہ کے ساتھ مقابلہ کرے گا اور اس حصار کو توڑ کر اسی طرح فاتحانہ طور پر باہر نکل کر آئے گا جس طرح شعب ابی طالب سے نبی کریم علیہ السلام تشریف لائے تھے، قطر اور امیر قطر کی جرات کو ہزاروں سلام.
اخیر میں اس حقیر کی ان ہند وستانی علماء سے درخواست ہے جو رابطہ کے ممبر ہیں کہ وہ احتجاجی طور پر رابطہ سے مستعفی ہوجائیں تاکہ ہندوستان سے حکومت کو واضح پیغام ملے-
8877904154