غنڈہ گردی ،قتل عام ،خاموش قیادت

پس آئینہ:شمس تبریز قاسمی

عید سے قبل ٹرین میں حافظ جنید کو وحشیانہ انداز میں قتل کرکے مسلمانوں کی عید کی مبارکباد دی گئی اوراب عید کے بعد جشن منانے کیلئے جھارکھنڈ میں ایک بزرگ کا قتل کردیاگیاہے ،ان دوواقعات کے دوران گزشتہ تین سالوں میں سینکڑوں مسلمانوں کاقتل ہوچکاہے ،بھیڑ نے متعدد مسلمانوں کو تباہ وبرباد کردیاہے ،گائے کے نام پر پورے ہندوستان میں مسلمانوں کو بے دردی کے ساتھ ماراگیاہے ،انڈیا اسپینڈ کے سروے کے مطابق 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے97 فیصد ایسے حملے رپوٹ کئے گئے ہیں جس میں گائے کے نام پر مسلمانوں کا قتل کیا گیاہے ،مسلم گھرانوں پر حملہ کیا گیا ہے ،گائے دہشت گردی کے اب تک 63 واقعات در ج ہوئے ہیں جس میں 32 کا تعلق ان ریاستوں سے ہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ،آٹھ واقعات ان ریاستوں میں پیش آئے ہیں جہاں کانگریس کی حکومت ہے بقیہ ان ریاستوں میں پیش آئے جہاں دیگر پارٹیوں کی حکومت ہے، گﺅکشی کے الزام میں حملہ کرنے والے یہ تمام ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں جو وشوہند وپریشد،بجرنگ دل اور آر ایس ایس سے وابستہ ہوتے ہیں اور اس کے بینرتلے یہ دہشت گردانہ واقعات انجام دیتے ہیں،2017 کے پہلے چھ ماہ میں گﺅکشی کے نام پر اب تک 20 حملے درج کئے گئے ہیں جبکہ 2016 میں ہوئے حملے اور قتل میں سے 75 کا تعلق گﺅ کشی سے تھا ۔دوسری جانب تین سالوں کے درمیان اب تک کسی بھی واقعہ کے مجرم کوکوئی خاص سزانہیں دی گئی ہے ،کسی کو کیفرکردار تک نہیں پہونچاگیاہے، کسی کو تختہ دار پر نہیں لٹکایاگیا ہے اور نہ حکومت نے سخت ایکشن لیاہے بلکہ ہر معاملے میں مظلوم اور مقتول مسلمانوں کو ہی قصوروارٹھہرانے کی کوشش کی گئی ہے ۔
ہر روز ملک کے مختلف علاقوں سے بھیڑ کے ذریعہ قتل کی خبریں سامنے آرہی ہیں ،روزانہ ہجوم کے ذریعہ مسلمانوں کو ماراجارہاہے ،کہیں گﺅکشی کا الزام لگاکر خون بہایاجارہاہے تو کہیں بغیر کسی الزام کے ہی بے دردی کے ساتھ پیٹاجارہے ،ان واقعات سے پورے ملک کے مسلمانوں پر خوف طاری ہوگیاہے ،گھر سے باہر قدم رکھنے میں خوف محسوس ہورہاہے ،ٹرینوں میں سفر کرنا موت کے منہ میں جانے کے مترادف بن چکاہے ،بلکہ اپنا گھر بھی اب محفوظ نہیں رہ گیاہے ،کب کس وقت اور کس حال میں کوئی بھیڑ آجائے ،کسی مسلمان پر حملہ کردے ،پیٹ پیٹ کر جان لے لے اور پھر گھرکو بھی نذر آتش کردے اس کی کوئی گارنٹی نہیں رہ گئی ہے ۔
موجودہ صورت حال سے نوجوان نسل شدید پریشان ہے ،حکومت کے بجائے مسلم قیادت پر غصہ نکال رہی ہے ،ملک کے ماجودہ ماحول کو بدلنے کیلئے وہ ہر کچھ کرنے کوتیار ہے لیکن ان کی کوئی رہنمائی نہیں ہورہی ہے ،کوئی ان کی قیادت نہیں کررہاہے ،سوشل میڈیا پر جس انداز سے لوگ اپنے غم وغصہ کا اظہار کررہے ہیں اس سے بخوبی یہ اندازہ ہوتاہے کہ حالیہ واقعات نے مسلمانوں کو لرزہ براندام کردیاہے ۔انہیں ہر پل شدید خطرہ محسوس ہورہاہے ،وہ اند رسے بہت زیادہ بے چین اور پریشان ہیں،حالات نے انہیں زندگی کے مشکل ترین موڑ پر لاکھڑ ا کردیاہے، مستقبل بہت ہی خوفناک نظر آرہاہے ۔
دوسری طرف مسلم قیادت اپنی خاموشی توڑنے کا نام نہیں لے رہی ہے ،کوئی لائحہ عمل تیار کرنے میں ناکام ہے ،مودی حکومت کے تین سالوں کا عرصہ گزرنے کے باوجود مسلمانوں نے اس کا مقابلہ کرنے کی کوئی پالیسی مرتب نہیں کی ہے ،ہر واقعہ پر ملی تنظیموں کی جانب سے حسب روایت قدم اٹھائے جارہے ہیں،پریس ریلیز جاری کرکے واقعہ کی مذمت کی جارہی ہے ،وفد کی شکل میں متاثرین کے اہل خانہ سے ملاقات کی جارہی ہے ،معمولی رقم کے ذریعہ امداد کی جارہی ہے ،سربراہان مملک کو خطوط لکھ کر خاطیوں کے خلاف اقدم کرنے کا مطالبہ کیا جارہے ۔
مسلمانوں پر ہورہے مظالم اور ہندوغنڈہ گردی سے مقابلہ کرنے کیلئے مسلمانوںکا یہ انداز اب غیر موثر بن گیاہے ،بی جے پی حکومت میں پورانقشہ بدل گیاہے ،کانگریس کے دور اقتدار میں کسی حدتک اس طرح کی پریس ریلیز اور خطوط اور مطالبے موثر ثابت ہوجاتے تھے ،مسلمانوں کو خوش رکھنے اور ووٹ بینک کی سیاست کے پیش نظرحکومت کبھی اقدامات کیا کرتی تھیں ،خاطیوں پر مقدمہ بھی چلایا جاتھا لیکن 2014 کے بعدتصویر بدل گئی ہے ،مجرموں کو سزائیںنہیں مل رہی ہیں،خاطیوں کے خلاف ایکشن نہیں لیاجارہاہے، بلکہ ملزموں کی حمایت ہورہی ہے ،قاتل کی حرکتوں کو جائز ٹھہرایا جارہاہے ،قتل جیسے سنگین جرائم کو کرائم کی نظر سے نہیں دیکھاجارہاہے ، ملک بھر میں گﺅرکشکوں اور سنگھی دہشت گردوں کے خلاف حکومت خاموشی کامظاہرہ کررہی ہے ،ان واقعات کی مذمت نہیں کررہی ہے ۔الغرض تین سالوں سے مسلمانوں کے ساتھ ہورہے مظالم ،قتل اور تشدد کے واقعات سے بتلارہے ہیں کہ یہ سب حکومت کی سرپرستی میںہورہاہے ،ایک ساتھ پر پورے مسلمانوں کا قتل کرنے کے بجائے ایک کرکے حکومت مسلمانوں کو ختم کرنے کی پلاننگ طے کی گئی ،ہندوستان کو مسلمانوں سے خالی کرانے یہ خفیہ منصوبہ بندی ہے ۔
مسلم قیادت کو خاموشی توڑنی ہوگی ،تمام قائدین کو ایک اسٹیج پر آناہوگا ،کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کرناہوگا،قوم کو اس خوف وہراس کے ماحول سے باہر نکالنے کیلئے کوئی منظم راستہ اپناناہوگا،کیوں کہ پانی سرسے اونچاہوچکاہے،ظلم اپنے انتہاءکو پہونچ چکاہے ،صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکاہے ،ہر آنے والا پل بد سے بدتر ثابت ہورہاہے ،یکے بعد دیگر قتل کے واقعات نے مسلم قوم کو بہت کمزور اور خوف زدہ کردیا ہے ۔گذشتہ دنوں ایک تنظیم نے تین سالوںبعد مذاکرات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وزیر اعظم نریند رمودی سے ملاقات کی تووہ بھی کارگر اور مفید ہونے کے بجائے خطرناک ثابت ہوئی اورمسلم قوم کے بجائے حکومت کے مفاد سے یہ ملاقات وابستہ ہوگئی ۔
آزاد ہندوستان کی تاریخ کا یہ سب سے مشکل ترین دور ہے ،ہم ایسے ماحول میںاب جی رہے ہیں جس میں حکومت سے بھی کوئی توقع نہیںرہ گئی ہے ،ماضی کی طرح ہم حکومت کے خلاف لکھنے اور بولنے میں بھی کوئی فائدہ محسوس نہیں کررہے ہیں، ٹی چینلوں اوراخبارات کی ہیڈلائن پر چھپنے والی مسلمانوں کے قتل کی خبریں مودی حکومت کیلئے ذرہ برابر باعث شرمندگی ثابت نہیں ہورہی ہے ،ہندوہ غنڈہ گردی اتنی بڑھ گئی ہے کہ پولس بھی بے بسی کا مظاہر ہ کرنے لگی ہے ،پولس اسٹیشنوں پر ہندویواآہنی کے غنڈے حملہ کرنے لگے ہیں ، لاءاینڈ آڈر کا تصور ہندوستان میں اب ناپید ہوچکاہے ،جنگلی راج کا دوبارہ آغاز ہوگیاہے ،یہاں کوئی قانون ہے نہ کوئی حکومت یا پھر اس بھیڑ کوپس پردہ حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے ،گجرات قتل عام ماڈل کو پورے ہندوستان میں نافذ کردیا گیاہے اس فرق کے ساتھ کہ وہاں مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کی اجازت دی گئی تھی اور اب انفرادی قتل عام کرنے کی سپاری بانٹی گئی ہے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں