پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
ہندوستان کی آزادی اور اسرائیل کے ناجائز وجود کی تاریخ تقریبا ایک ہے ،15 اگست 1947 کو ہندوستان کی آزادی کا اعلان ہواتھا اور ایک سال بعد 14 مئی 1948 میں فلسطین کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کرکے ایک اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیاتھا ،ہندوستان نے شروع میں اس ناجائز قبضہ کی مخالفت کی ، مہاتما گاندھی نے مذہب کے نام پر فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی مذمت کی ،ہندوستان نے 1947 کے تقسیم منصوبہ کے خلاف ووٹنگ کی ، 1949 میں عرب ممالک میں یہودیوں کے داخلے کی مذمت کی ،اقوام متحدہ میں اس ی شمولیت پر بھی ہندوستان نے احتجاج کیا۔
،دوسری طرف ہندومہاسبھا نے اسرائیل کی کھلے عام حمایت کی ،سیاسی اور اخلاقی طور پر مکمل سپورٹ کیا ،آر ایس ایس کے سربراہ مادھو سدھاشوی گوالکر نے بھی قیام اسرائیل کا پرتپاک استقبال کیا ،فلسطین اور عرب کی سرزمین کو یہودیوں کا آبائی وطن کہا۔1950 میں حکومت ہند کا موقف بھی بدل گیا ،سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی قیادت میں ہندوستان نے اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا اور یہ بیان جاری کیا کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں،1953 میں اسرائیل کو ممبئی میں ایک قونصل خانہ بھی قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی تاہم نہرو حکومت نے ایمبسی قائم کرنے کی اجازت نہیں دی اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ اسرائیل سے براہ راست زیادہ سفارتی تعلقات عرب ممالک سے رشتوں میں تلخی کا سبب بنے گا اور یہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے حق میں بالکل ہی اچھا نہیں ہوگا ۔
بہر حال 1990 میں باضابطہ طور پر سفارتی تعلق قائم ہوگیا، دونوں ملکوں میں دونوں جگہ کے سفارت خانے بن گئے ۔ تاہم کانگریس نے ظاہری طور پر اسرائیل سے کچھ دوری بنائے رکھی ،عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بگڑنے کا اندیشہ اور ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ہندوستان کے کسی بھی وزیر اعظم، صدر جمہوریہ یاکسی اور اہم لیڈر نے اسرائیل کا دورہ نہیں کیا حالانکہ ، تجارتی اور سفارتی رشتہ دونوں ملکوں کے درمیان عروج پر رہا،ایک رپوٹ کے مطابق 1990 سے 2009 کے درمیان ہندوستان اسرائیلی فوجی اشیاء کا دوسرا سب سے بڑا خرایدار رہاہے ،دونوں ممالک کے درمیان فوجی معاہدہ ،خفیہ ایجنسیوں کی معلومات کا اشتراک اور مشترکہ ٹریننگ کا بھی معاہدہ ہے ،2014 کے مطابق ہندوستان ایشاء میں اسرائیل کا تیسر اسب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے،بی جے پی سرکار آنے کے بعد ہندوستان اسرائیل تعلقات میں بہت زیادہ اضافہ ہواہے اور اسے مکمل استحکام بخشنے کیلئے سابقہ روایات سے بغاوت کرتے ہوئے خود وزیر اعظم نریندر مودی اسرائیل کے تین وزہ دورے پر پہونچ چکے ہیں ،جہاں ان کا ریڈ کارپیٹ بجھاکر شاند ار استقبال کیا گیا ہے اورسات اہم امور پر معاہدہ بھی ہواہے ، جس میں مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا اور اسرائیل سے ہتھیار خریدنا سرفہرست ہے۔
1997 میں پہلے مرتبہ اسرائیلی صدر ایز ر ویزمین نے ہندوستان کا دورہ کیا ،2002 میں ہندوستان کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اسرائیل کا دوروزہ سفر کیا اور اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہاہے ،2003 میں اسرائیل کے وزیر اعظم نے ایئرن شیرون نے بھی ہندوستان کا دورہ کیا ،2006 میں کانگریس کی حکومت میں کپل سبل اور شردپوار سمیت متعدد وزیراء نے اسرائیل جانے کا شرف حاصل کرلیا ،2012 میں وزیر خارجہ نے ایس ایم کرشنا نے دوروزہ دورہ کرکے دونوں ملکوں کے درمیان کئی معاہد وں پر دستخط کیا ۔اب 2014 میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد ہندوستان ۔ اسرائیل کے سفارتی تعلقات اچانک آسمان کی بلندیوں پر پہونچ گئے ہیں ،گذشتہ تین سالوں میں دونوں جانب سے تقریبا ایک درجن سے زائد وزراء اور وفد ایک دوسرے ملک کا دورہ کرچکے ہیں،اکتوبر 2015 میں صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی نے بھی اسرائیل کا دورہ کیاتھا جو کسی بھی ہندوستان صدر کا پہلادورہ اسرائیل تھا۔ ،وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ ششما سوراج کا بھی دورہ ہوچکاہے اور وزیر اعظم نریندر مودی اسرائیل کے دورے پر ہیں ۔
اسرائیل جانے والے لیڈران عموماً اسرائیل کے ساتھ رملہ بھی جاتے ہیں جو فسطینوں کے زیر انتظام ہے ،گذشتہ دنوں امریکہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی اسرائیلی سفر کے دوران رملہ کا سفر کیاتھا ور فلسطینی صدر محمود عباس سے خصوصی ملاقات کی ،مشترکہ پریس کانفرنس کی ،لیکن نریندر مودی صاحب کا معاملہ اس سے مختلف ہے ،وہ صرف اور صرف اسرائیل گئے ہیں ،ان کے پرگرام میں رملہ کا سفر اور فلسطینیوں سے ملاقات شامل نہیں ہے ،شاید اس وجہ سے بھی نریند رمودی کے اسرائیل دورے کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے،خود مودی صاحب میڈیا کی ایک بڑی ٹیم کو ساتھ لیکر گئے ہیں اورمیڈیا ہاؤس کو دورہ کو خصوصی کوریج دینے کی ہدایت دی گئی ہے۔
یہودی کمیونیٹی اور ہندوستان کے سنگھ پریوار کے درمیان قربت شروع سے ہے ،جن دنوں نے ہندوستان قیام اسرائیل کی مخالفت کی اس وقت سنگھ پر یوار کی جانب سے شدید مذمت کی گئی، دھرنا اوراحتجاج کیا گیا اور اب جب سنگھ پریوار کو اقتدارمیں آنے کا موقع مل گیاہے تو سرکاری سطح پریہ رشتے مضبوط ہورہے ہیں ،فلسطین کی تئیں پالیسی تبدیل کی جارہی ہیں ،یہ پیغام دیاجارہاہے کہ ہندوستان اور اسرائیل اب ایک ساتھ ہیں ،دونوں کے درمیان تعلقات بہت مضبوط ہوگئے ہیں ۔یہودی اور سنگھ پریوار کے درمیان کچھ چیزیں مشترک ہیں ،دونوں کی پالیسیاں یکساں ہیں،دونوں نے مسلمانوں کو ختم کرنے اور انہیں برباد کرنے کا عہد کر رکھا ہے ،اسرائیلی فوج اور عوام کے ہاتھ فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام محتاج بیان نہیں ہے ،ان پر ہونے والے مظالم سے پور ی دنیا واقف ہے ،اب تک لاکھوں بے گناہوں کا قتل عام کیا جاچکاہے ،کچھ ایسی ہی تصویر بی جے پی حکومت آنے کے بعد ہندوستان کی بن چکی ہے ،فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں پولس نہتے مسلمانوں پر ظلم کرتی ہے اور یہاں شدت پسند ہندو ہجو م کی شکل میں مسلمانوں کا قتل کرتے ہیں ،تاہم قتل دونوں جگہ مسلمانوں کا ہورہاہے ،نہتے ایمان والوں کا ہورہاہے ہندوستان اسرائیل بن چکاہے اور اسرائیل ہندوستان کی نظیر پیش کررہاہے ،برہمن واد اور یہودیت کے علمبردار ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں ،عیسائیت بھی ان کے ساتھ کھڑی ہے ،نتین یاہو نے مسلمانوں پر مظالم ڈھالنے کی صفت میں مساوی ہونے کے سبب یہ بھی کہ یا ہے کہ میری اور مودی کی جوڑی جنت میں بنی ہے ؟؟۔۔۔ کیوں کہ دونوں کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں اور دونوں جگہ مسلمانوں کا قتل عام ہورہاہے ،دوسری طرف مسلمان تنہا ہیں ،خود وہ آپس میں لڑرہے ہیں ،دوسروں سے مقابلہ کرنے کے بجائے اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانے پر آما دہ ہیں ۔
مظالم کے خلاف آواز اٹھانے اور اس کی مذمت کرنے کے حوالے سے بھی دونوں قوموں کا رویہ ایک جیسا ہے ،یہ دونوں اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کرتے ہیں۔چناں چہ اسرائیلی میڈیا میں شائع ہونے والے متعدد کالموں اور مضامین میں ہندوستان کی اس بات پر کی تعریف کی گئی ہے کہ جب 2014 میں فلسطین پر اسرائیلی حملے کی پوری دنیا مذمت کررہی تھی تو ہندوستان کی برسراقتدار این ڈی اے حکومت نے اس کے بارے میں ایک لفظ تک نہ کہا۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق یروشلم پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک اداریے میں خصوصی طور پر اس کا ذکر کیا گیا کہ جب 2014میں فلسطین پر آپریشن پروٹیکٹو ایج کے نام پر کئے گئے اسرائیلی حملے کے خلاف اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں اسرائیل کی مذمت کی گئی تو ہندوستان نے اس کے حق میں بھی ووٹ نہیں دیاتھا،فلسطین پر اسرائیل کا حملہ شروع ہونے سے دو ماہ قبل ہی وزیراعظم نریندر مودی نے عہدہ سنبھالا تھا اور انہوں نے اپنی وزارت عظمیٰ کے آغاز میں ہی اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کا ثبوت پیش کردیا تھا، اسی طرح روزنامہ ہارٹز میں شائع ہونے والے ایک کالم میں اس بات کی جانب توجہ دلائی گئی کہ ہندوستان اگر کبھی فلسطینیوں کے بارے میں بات کرتا بھی ہے تو یہ محض ایک کاغذی کارروائی ہوتی ہے کیونکہ دراصل وہ اس معاملے میں اسرائیل کا مکمل اور بھرپور حمایتی ہے، اس مضمون میں مزید لکھا گیا کہ اگرچہ بظاہر ہندوستان فلسطینیوں کیلئے دوستانہ رویہ رکھتا ہے لیکن اصل میں اسرائیل کا سچا دوست ہے۔اسرائیلی میڈیا کی طرح انڈین میڈیا بھی دونوں ممالک کے درمیان گہری محبت کے گن گائے جارہے ہیں۔
پنڈٹ نہرو کی یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ رشتے خراب ہونے اور ان کی ناراضگی کے اندیشے نے انہیں اسرائیل کے ساتھ کھلے عام تعلقات قائم کرنے نہیں دیا ،1962 میں چین کے ساتھ جنگ کے موقع پر اسرائیل سے خصوصی مدد ملنے کے باجود انہوں نے تل ابیب کو دہلی میں سفارت خانہ کھولنے کی اجازت نہیں دی گویا انہوں نے عرب کو اسرائیل پر ترجیح دی اور آج عرب ممالک سے ہندوستان کے گہرے رشتے ، خصوصی تعاون ،شاندار استقبال اورتاریخی اعزاز مودی کی راہ میں خوف بن کر حائل نہیں ہوپاتے ہیں۔سعودی عرب میں اعلی شہری اعزاز سے نوازے جانے کے باوجود نریندر مودی کو کسی عرب ملک ،کسی مسلمان اور مظلوم فلسطینی کی ناراضگی کا ذرہ برابر احساس نہیں ہوتاہے ،وہ مسلمانوں کے دشمن اور قبلہ اول پر قابض یہودیوں کے ساتھ تعلقات کو مسلسل فروغ دینے کے بعد اب بذات خود وہ ہاں کا دورہ کررہے ہیں۔ آخر کیوں ؟کیا عرب ممالک اور مسلم حکمرانوں کی اب کوئی حیثیت نہیں رہ گئی ہے ؟ یا پھر عرب ریاستوں سے قریب ممالک کی اسرائیل سے قربت ان کیلئے افسوس کا سبب نہیں ہے؟؟؟ ۔
stqasmi@gmail,com