دو ٹوک ….. قاسم سید
کبھی کبھی ایسامحسوس ہوتا ہے کہ 2014 میں کانگریس کی بدترین شکست اور بی جے پی کی غیر متوقع کامیابی کو محض اقتدار کی تبدیلی مان کر اس کے اثرات ومضمرات پر غور نہیں کیا گیا اور پھر اس انتظار میں بیٹھ گئے کہ پانچ سال بعد انہی پارٹیوں کی سرکار آجائے گی جن پر جان و دل نثار کرتے رہے ہیں اور غیر مشروط وفاداری کا آزادی کے بعد سے عہد باندھ رکھا ہے۔ بھلے ہی انہوں نے قسطوں میں مار کر کسی لائق نہیں چھوڑا۔ ایک بار بھی یہ نہیں سوچا گیا کہ یہ تبدیلی محض اقتدار کی نہیں بلکہ نظریاتی و تہذیبی تصادم کےخطرہ کا آغاز ہے جس کا دباؤ سب سے زیادہ اقلیتوں کو جھیلنا ہوگا کیونکہ مزاحمت بھی ان کی طرف سے ہی ہونا ہے چنانچہ ناموں کی تبدیلی سے لے کر پالیسیوں کی تبدیلی ، نصاب میں غیر معمولی ردوبدل مغل دور کا نصاب سے اخراج ،گائے ، گنگا اور کتیا کا ورد، گؤ کشی کے بہانے ظلم و تشدد اور اقتصادی تباہی کے نئے زاویوں کی تلاش ،راشٹرگان ،وندے ماترم ،مدارس پر ہاتھ ڈالنے جیسے اقدامات ،قربانی کے تعلق سے پیدا کی گئی قانونی مشکلات، تین طلاق کا مسئلہ وغیرہ اس کا عملی اظہار ہیں۔ اسی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کے اقدامات یہی اشارہ کرتے ہیں کہ چوطرفہ محاذ کھول کر اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو ایک حصار میں قید کردیا جائے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ حالات کے مدوجزر کو جان بوجھ کر نظر انداز کیاگیا یا پھر ان کی سنگینی اور آنے والی نسلوں کے لیے ہونے والے تہذیبی وسماجی نقصانات کی ان دیکھی کی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ نئے خطرا ت کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی بنانے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی گئی ۔ ہماری سیاسی مذہبی جماعتوں نے کلیا میں گڑھ پھوڑ نے کی عادت نہیں چھوڑی، حسب عادت کانفرنسوں کی مقدار بڑھا دی گئی، بیانات کا مرچ مسالہ تھوڑا تیز کردیا اور قرار دادوں کا وزن بڑھا دیاگیا ۔ گزشتہ دہائیوں میں ایسے کم مناظر تاریخ نے دیکھے جب آبلہ پائی کے شوق نے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہو، تیز دھوپ میں سائبان کی تلاش اور قدم قدم پر سستانے کی خواہش نے کسی بھی تحریک کو کامیاب نہیں ہونے دیا جو تحریک اٹھی گھن گرج کے بعد بن برسات ختم ہوگئی، اب تو تحریک چلانے کا حوصلہ بھی نہ رہا۔ نہ جانے کونسا خوف یا مصلحت ہڈیوں میں جاڑا بن کر سرایت گئی ہے الا ماشاء اللہ صاحبان قیادت عافیت خانوں میں پناہ گزیں ہیں باہر نکلنے کے لیے مناسب موقع کا انتظار ہے۔
ایسے حالات میں نگاہ امید مسلمانوں کے سب سے باوقار معتبر مشترکہ پلیٹ فارم مسلم پرسنل لابورڈ پر جاتی ہے جو تین طلاق پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر تذبذب اور گومگو کا شکار ہے ۔ ایک مجلس میں تین طلاق کا نفاذ اختلافی مسئلہ ہے جس پر امت کا اجماع نہیں ہے۔ مسلکی اختلافات سے گنجائش نکال کر ہی غالباً سپریم کورٹ کو یہ موقع ملا کہ اس نے ایک مجلس میں تین طلاق پر تاحکم ثانی پابندی لگادی اور بورڈ کی خواہش کے مطابق حکومت سے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی سفارش بھی کردی۔ اس نے اپنے حلف نامہ میں سپریم کورٹ کو چیلنج کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ قانون سازی کا حق صرف پارلیمنٹ کو ہے یعنی ہم نے اس کے ہاتھ میں چھڑی پکڑا دی۔ چونکہ بورڈ کا اہم ترین اجلاس چند دنوں بعد بھوپال میں ہوگا سب کی نگاہیں مرکوز ہیں کہ وہ اس قضیہ میں کون سی راہ نکالتا ہے ۔ بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ واضح موقف ملت کے سامنے رکھے جس نے سپریم کورٹ کے فیصلہ میں تضاد تلاش کرلیا ہے جبکہ خود اس کا موقف بھی متضاد ہے ایک طرف اس کا دعویٰ ہے کہ عدالت نے مذہبی معاملہ مان کرمداخلت نہ کرنے کی بات کہہ کر بورڈ کے موقف کی تصدیق کردی وہیں تین طلاق پر حکم نامہ کو شریعت میں مداخلت قرار دے رہا ہے وہ بہت پہلے کہہ چکا ہے کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے گا اسے تسلیم کریں گے ۔ اس کے کئی ارکان نے بغیر تحفظات کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا اور بعض نے شریعت میںکھلی دخل اندازی اور تو اور سپریم کورٹ میں بورڈ کا وکیل پریس کانفرنس کے ذریعہ فیصلہ کی مکمل حمایت کرتا ہے اس موقع پر بورڈ کے ایک معزز رکن جو ایسے بیانات کے لیے جانے جاتے ہیں پریس کانفرنس میں موجود رہے ۔ ایسی صورت میں اگر مگر کی گنجائش کہاں رہتی ہے۔ اگر فیصلہ شریعت کے خلاف ہے تو آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ بورڈ کے بعض عاقبت نااندیش لوگوں کی وجہ سے اس معاملہ پر ملت میں انتشار پہلے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جن مقتدر افراد نے فیصلہ آنے کے بعد الگ رائے رکھی ہے اس پر غور ضروری ہے۔ یقین کرناچاہئے کہ بھوپال اجلاس ان تمام شکوک و شبہات اور غیر یقینی کیفیت کو ختم کرنے میں معاون ہوگا جو عدالتی فیصلہ اور اس پر متضاد ردعمل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
اب پہلےسے زیادہ اس بات کی ضرورت ہےکہ بورڈ اپنا باضابطہ ترجمان مقرر کرے جو میڈیا کے سامنے بورڈ کا موقف کامیابی سے رکھ سکے نہ معلوم کیوں بورڈ اس سے کنارہ کئے ہوئے ہے۔ کم از کم وہ با شرع ہوا سلامی وجدید قوانین سے حسب ضرورت واقف ہو ۔ سیاسی ٹورسٹ نہ ہو، وہ کسی سرکاری کمیٹی کا ممبر بھی نہیں ہوناچاہئے کیونکہ سرکاری مراعات سے پوشیدہ تعاون اور خیر سگالی کے بہت سے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔ بورڈ جیسے ثقہ ادارے کا ترجمان بھی سنجیدہ اور ثقہ اور غیر جانبدار ہوناچاہئے۔
صورتحال لگاتار پیچیدہ ہوتی جارہی ہے ۔ شرعی احکامات پر عمل آوری سے متعلق نت نئے چیلنج پیدا کئے جارہے ہیں وہیں کم از کم اترپردیش کی سطح پر مدارس کے سامنے سنگین مسائل آنے والے ہیں ان پر بھی غور کرکے ملت کی رہنمائی درکار ہوگی ایسے میں بورڈ کو اپنا دامن اور وسیع کرنا ہوگا۔ بعض مکتبہ فکر کو شکایت ہے کہ ان کی نمائندگی نہ کے برابر ہے اس تشنگی اور احساس کو نرسمہا راؤ نے ہوا دی اور کئی بورڈ بنوا دیے تاکہ اصل بورڈ کی اہمیت کم کی جاسکے مگر کانگریس اپنی سازش میں کامیاب نہیں ہوئی اور اسے منھ کی کھانی پڑی۔ بہر حال اگر اس پہلو سے کوئی کمی ہے اور وہ نظر بھی آتی ہے تو فراخ دلی سے اس کو دور کرنا چاہئے تاکہ بورڈ کو مزید تقویت ملے وہ اور زیادہ فعال ہوسکے۔
اسی کے ساتھ بورڈ کو سیاسی آلودگیوں سے بھی پاک کرنا ہوگا اس میں کوئی دورائے نہیں بعض طابع آزما اپنی سیاسی امنگوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے بورڈ کا استعمال ماضی میں کرتے رہے ہیں اور آج بھی بورڈ میں ایسے لوگ سرگرم ہیں۔ بورڈ میڈیا کے لیے علما و ماہرین کا ایک پینل بناکر اس کی تربیت سازی کے ساتھ ڈبیٹ میں شرکت کا اہل بنانے پر ترجیحی بنیاد پر غور کرے جو لوگ بورڈ کے نام سے جاتے ہیں وہ صرف ذلت و رسوائی کا سامان ہیں ان پر بورڈ کا نام استعمال کرنے پر سختی سے پابندی ہو یا پھر بورڈ اعلان کرے کہ ہم نے انہیں مجاز بنایا ہے۔
شخصیات اداروں سے بڑی نہیں ہوتیں اور نہ ہی ادارے مقدس اور پاک روح شخصیت پرستی کے خطرناک مرض نے ملت کو ٹکڑوں میں بانٹنے میں اہم رول نبھایا ہے۔ ان کے عقیدت مندوں اور مریدوں کی فوج کے ذہن میں یہ تصور بٹھایا جاتا ہے کہ ان کے حضرت پیر و مرشد ( جو یقیناً انسان اور آدم کی اولاد میں سے ہیں ) سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوسکتی ہے اس لیے جو ان پر انگلی اٹھانے کی گستاخانہ جسارت کرے اس کا سر قلم کردو وہ مستوجب سزا ہے ۔ مخالفوں کا ایجنٹ ہے ایک دوسرے کو گمراہ سمجھنے اور سمجھانے کے عمل نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ مسلم سماج بدترین قسم کی عدم روا داری کا شکار ہے جو صرف اپنے لیے حق اختلاف رکھتا ہے ۔ بورڈ کی خیر خواہی صرف اس کی چاپلوسی خوشامد اور نعرہ ہائے تحسین بلند کرنے میں نہیں اور نہ ہی بورڈ کو گؤ رکشکوں جیسے سیکورٹی گارڈوں کی ضرورت ہے ۔ بہر کیف کوئی کتنے ہی پتھر مارے مذہبی لباس پہنی دشنام طرازیاں کرے اپنی بات کہتے رہیں گے۔
editorurk@gmail.com