احمد علی برقیؔ اعظمی
کیوں منائیں نہ ہم عالمی یومِ زن
ہے یہی زن جو ہے رونقِ انجمن
ہے غزل میں تغزل کا مظہر یہی
ہے یہی رونقِ بزمِ شعرو سخن
عالمِ رنگ و بو اس سے معمور ہے
زندگی میں اسی سے ہے اک بانکپن
منحصر اس پہ ہیں بزم آرائیاں
اس کے مرہونِ منت ہیں یہ جان و تَن
ہے یہ انعام نوعِ بشر کے لئے
کیوں تصدق نہ ہو اس پہ حُسنِ چمن
بطنِ مادر کے مرہونِ منت ہیں ہم
جس کے حصے میں ہے صرف رنج و محن
پرورش کررہی ہے جو اولاد کی
نوچتے ہیں اسے بن کے زاغ و زغن
فرض ہے حُرمتِ زن ہمارے لئے
جس کا اظہار ہے عالمی یومِ زن
اس سے سرسبز ہے گُلشنِ زندگی
ہے یہ برقیؔ ہمارے لئے گُلبدن