معاذ مدثر قاسمی
مرکزالمعارف ممبئی۔
روہنگیاں مسلمانوں کا تصور کر تے ہی ظلم و ستم، جبروتشدد کی چکی میں پستی ہو ئی تا ریخ کی انتہا ئی مظلوم و مفلوک الحال قوم کا نقشہ پورے ذہن و دماغ پر چھا جاتا ہے۔ان پر غیر انسانی ظلم و جبر کی لا متناہی داستان کا خیال آتے ہی پورے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے، کیونکہ سفاکیت کی ایسی داستان ان پر دہرائی جارہی ہے جو ایک عام سلیم الفطرت انسان کے تصور سے بالا تر ہے۔
1970 کے بعد سے وقفہ وقفہ سے ان کو ظلم و بربریت کا تختہ مشق بنا یا جاتا رہا ہے۔
لیکن گزشتہ 25 اگست 2017 سے ان پر ظلم و بر بریت کے جو منا ظر سامنے آئے ہیں اسکے تصور کوہی برداشت کرنا محال ہے۔اس سےتو پوری انسانیت شرمسار ہوکر رہ گئی، اشرف المخلوقات کہی جانے والی انسانیت پر ظلم و بر بریت کے ہر وہ طرقے آزمائے گئے جس سے ایک خونخوار جنگلی درندہ بھی شرمسارہو جائے۔کچھ ہی دنوں میں ہزاروں معصوموں کو موت کے خوفناک جبڑوں میں ٹھونس کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، کئی عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔بچوں کے زندہ اعضا کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جانورں کے سامنے پھنک دیے گئے ،دھکتی ہوئی آگ پر زندہ لٹکا یا گیا۔جس سے لاکھوں لوگ ملک بری پر مجبور ہوگئے۔
یہ ہے وہ خوفناک منظر جسکو پیدا کرنے والے وہ لوگ ہیں جنکا مذہب دنیائے انسانیت کو عدم تشدد اور امن وشانتی کا درس دیتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو چھو ٹے سے چھٹے جانوروں اور پرندوں کے قتل کو جرم عظیم سمجھنے کا دعوی کرتے ہیں، اہمسا پر انکا سو فیصد یقین ہے، آج اسی بدھزم کے پیروکار کے ذزریعہ انہیں کے ملک میں یہ ننگا ناچ ناچا جا رہا ہے، جسکے پیچھے دھشت گردی کا خوفناک چہرہ “آشن ویراتھو”کا ہاتھ ہے جو انکا مذہبی پیشوا ہے اسنے اپنے زہلیے بیانات سے اپنی قوم کے لوگوں کو درندہ صفت انسان بنا دیا ۔ اور اسکو تقویت پہچانے والی انسان نما ڈائن سفاک عورت “آنگ سان سوکی” ہے جسے امن کا پیامبر اور نیلسن منڈیلا کا ہم پلہ سمجھا جاتا تھا، جسکو جمہوریت کا نمونہ مانا جاتا تھا اور اسی وجہ سے اسکو نو بل انعام سے نوزا گیا ،مگر آج وہ خاموشی کی چادر اوڑھے ہو ئی ہے اور جب منہ باہر نکا لا تو اول فول بکنا شروع کردیا کہ یہ میڈیا کا پروپیگینڈا ہے اور اس سے ہما را کو ئی سروکار نہی ہے۔یہ اس عورت کا حال ہے جسکی جمہوریت کی خاطر لڑائی میں مسلمانوں کا بھر پور تعاون حاصل تھا۔
ان سب کو کو جان نے کے بعد بھی امن کا ڈھونگی ٹھیکیدار امریکہ، لوگوں کو حقوق و انصاف دلا نے والی اقوام متحدہ جسکی ذ مہ داری ہیکہ دنیا ئے انسانیت میں امن برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے ،آج خاموش تما شائی بنے بیٹھے ہیں۔
اقوام عالم کا یہ ایک طرح کا دو رو خا پن ہے،کیوں کہ اگر ایک طرف 2 ستمبر 2015 کو ایلان کردی نامی 3 سالہ بچہ ساحل سمندر پر مردہ پایا جاتا ہے تو شو شل میڈیا پر ایک طرح کا ہنگامہ بپا ہو جاتا ہے، اسکے اوپر آنسووں کے دریا بہا ئے جاتے ہیں، اگر لندن میں 4 جولائی017 کو 5 سے 6 لوگ دہشت گردانہ حملے کے شکار ہوتے ہیں ساری عیسائی دنیا میں ہلچل مچ جاتی ہے، پوری دنیا ماتم کدہ بن جاتی ہے، ہر طرف موم بتیاں جلا کر ان سے اظہار یکجہتی کی جا تی ہے ۔جسمیں مسلم دنیا بھی صف بصف کھڑی نظر آئی۔
یقینا قتل کسی کا بھی ہو یہ ایک مذموم عمل ہے ،اسکی ہر طرف سے مذمت ہونی چا ہیے، اسکےخلاف مضبوط قدم اٹھانا چاہیے۔مگر آج برما کے حالات پر سب خاموش نظر آتے ہیں، ، جبکہ یہاں تو گھر اور افراد خانہ سمیت پوری کی پوری آبادی کو خاکستر کیا جا رہا ہے، ایک نہی کئی کئی ایلان کو ظالم ہاتھوں سے سمندر میں ڈبویا جارہاہے۔جس سے کئی سوالات جنم لیتے نظر آتے ہیں۔آخر ایسا دوہرا رویہ کیونکر ہے؟
اقوام متحدہ نے تو اپنا رسمی بیان کہ ” اس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا ” دیکر سکون کی چادر اور کر سوگیا ۔
مگر حد تو یہ ہیکہ عالم اسلام کے حکمران بھی اس موقع اس جرم میں برابر کے شریک نظر آرہے ہیں ۔کیوں کہ یہ اب بھی اپنے آقا امریکہ کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں ، کیا یہ اپنے آقا کے رد عمل کے انتظار میں خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں؟
سلام ہو اس مردآہن طیب اردگان پر جو ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے، آج بھی اس نے اپنا فرض نبھا کر اسلامی حکمرانوں کو سبق دیگیا کہ کسی کو خاطر خواہ میں لائے بغیر میانمار حکومت کی قوت نافذہ “آنگ سان سوچی” جو جمہوریت کی جھوٹی پہچان تھی کو وہ سب کچھ کہڈالا جو اسے کہنے کا حق تھا ، تنہا اسکے خلاف بھر پور آواز اٹھا ئی، اور مظلوموں کو ہر ممکن تعاون فراہم کیا ۔
مسلم حلمرانوں کو چاہیے کہ طیب اردگان سے سبق لے، جو تنے تنہا ں وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جسکا وہ عزم کرلیتا ہے ۔اگر یہ حکمران ذہنی غلامی کا طوق اتار کر، بادشاہت کے نشے سے باہر آکر متحد ہو جائیں تو اسلام اور مسلمانوں کی طرف اٹھنے والی ہر مخالف ہواؤں کا رخ کیونکر نہی پھیر سکتے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔
رابطہ : 8430874202