انسانی معاشرہ کی کامیابی میں خواتین کا کردار

شمس تبریز قاسمی
معاشرہ اور سوسائٹی کی تشکیل میں مرد و زن دونوں کی حصہ داری برابر ہے ،کسی ایک کے بغیر معاشرہ مکمل نہیں ہوسکتاہے اور نہ ہی دونوں صنف میں سے کسی ایک پر ظلم و زیادتی کی اجازت ہے ، معاشرہ کی کامیابی اور خوشحالی کیلئے ضروری ہے کہ مردوزن دونوں کے پاس اختیارات ہوں، دونوں کو سوسائٹی کا کلیدی حصہ مانا گیا ہو ، دونوں کو آزادی حاصل ہو، حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد سب سے پہلے حضرت حواء کی تخلیق کی گئی اور اس طرح انسانی معاشرہ کا وجود میں عمل میں آیا ،مرور زمانہ کے بعد معاشرہ میں عورتوں کو کم تر اور حقیر سمجھا جانے لگا ، مختلف مذاہب نے بھی عورتوں کو حق نہیں دیا ، کہیں پاپ اور گناہ کہا گیا تو کہیں اس کے وجود کو انسانیت کیلئے شرمناک بتایا گیا، کسی معاشرہ میں عورت کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے قتل کو واجب قرار دیا گیا ، تو کسی مذہب میں عورتوں کو انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا، ساتویں صدی میں اسلام نے اپنی آمد کے بعد عورتوں کے ساتھ ہونے والے ان تمام مظالم پر روک لگائی ، خواتین کو مردوں کے برابر لاکھڑا کیااور واضح طور پر کہاکہ مرد و زن کے درمیان معاشرتی طور پر کوئی امتیاز نہیں برتا جاسکتا ہے ،دونوں سماج کے اہم اجزاء ہیں، اسلام نے پرانی رسم و راج کے خاتمہ کا اعلان کرتے ہوئے جگہ بہ جگہ قرآن میں خواتین کے حقوق کو بیان کیا اور فضیلت و اہمیت کے اعتبار سے مردوں پر عورتوں کو ترجیح دی، ایک خاتون کی مختلف حیثیت بیان کی گئی اور ہرجگہ اسے اہمیت دی گئی، چناں چہ ماں اور باپ کی فضیلت بتاتے ہوئے اسلام نے ماں کو حصول جنت کا سبب قرار دیا ، ماں کے حقوق تین گنا زیادہ بتائے گئے ۔ جب بیٹا اور بیٹی کے رشتے کی بات آتی ہے تو یہاں بھی اسلام بیٹی کو رحمت قرار دیتا ہے وراثت میں اس کی بھی حصہ داری بیان کرتا ہے ۔ جب شوہر اور بیوی کے درمیان رشتوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو وہاں بھی اسلام عورت کو اہمیت دیتا ہے، مردوں پر ان کا نان و نفقہ واجب قرار دیتا ہے، کسی بھی طرح کی خدمت لینے سے منع کرتاہے ، اگر دونوں کے درمیان رشتوں کا نباہ مشکل ہوتا ہے اور نوبت جدائیگی کی آتی ہے تو یہاں بھی اسلام عورتوں کو تین حقوق فراہم کرتاہے ۔ بھائی اور بہن کے رشتے میں بھی بہن کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر اسلام عورتوں کو سماج میں برابری اور مساوات سے آگے بڑھ کر انہیں زیادہ حقوق دینے کا علمبردار رہا ہے، اسلام کی پوری تعلیمات میں کہیں بھی کوئی گوشہ ایسا نہیں ملتا ہے جس سے مردوں کو عورتوں کو استحصال کرنے کا موقع مل سکے یا پھر خواتین کو کمتر سمجھا گیا ہو ، لیکن مغربی معاشرہ کی سوچ و فکر اور آزادی نسواں کی تحریک نے مرد و زن کے اختلاط سے وجود پانے والے خوبصورت معاشرہ کے شیرازہ کو منتشر کرکے رکھ دیا ہے ، مغرب کی فکری یلغار نے مشرقی تہذیب پر مسلط ہوکر یہاں کے معاشرہ کو بھی تباہ و برباد کردیا ہے ، مساوات اور برابری جیسے نعروں کی وجہ سے معاشرہ زوال کی انتہاء کو پہونچ چکا ہے ، یوں ایک کامیاب معاشرہ مرد و زن کے درمیان تفریق بڑھ جانے کے بعد برباد ہوچکا ہے اور 14 سو سال قبل اسلام نے جس برائی کا خاتمہ کیا تھا ، خواتین کو جن مظالم سے آزاد کرایا تھا ایک مرتبہ بھر خواتین اسی کا شکار ہوچکی ہیں اور بات یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ معاشرہ میں خواتین کو کمتر اور حقیر سمجھا جارہا ہے ، خواتین کا استحصال ہورہا ہے، مساوی حقوق نہیں دیئے جارہے ہیں ۔
معاشرتی اور گھریلو سطح پر خواتین کا استحصال ایک اہم مسئلہ ہے، بر صغیر میں استحصال کی یہ کیفیت سے سب سے زیادہ پائی جاتی ہے اور اس اس سطح پر خواتین کا استحصال سب سے زیادہ خود خواتین کرتی ہیں، ساس اور بہو کی لڑائی، ننند اور بھاؤج کے درمیان جھگڑے کبھی کھبی انتہا کو پہونچ جاتے ہیں، اکثر مرد و ماں اور بیوی کے درمیان پائے جانے والے نزاع کے سبب ذہنی الجھن کے شکار ہوتے ہیں، معاشرہ میں ناہمواری یہاں تک پائی جاتی ہے کہ ساس اپنی بہو کو نوکر سے بھی بدتر سمجھتی ہے ، ہر کام لیتی ہے ، کھانے میں نمک اگر کم ہوجاتا ہے تو آفت ٹوٹ پڑتی ہے لیکن جب ان کی اپنی بیٹی کسی کے گھر میں جاتی ہیں تو یہ امید ہوتی ہے کہ میری بٹی رانی بن کر رہے ، کوئی کام نہ کرنا پڑے ، اسی ذہنیت پر مشتمل ایک ویڈیو بھی دو سال سے سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہورہی ہے ، محلہ کاا یک جوان اپنے پڑوسی کے یہاں آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ چچی بہو کیسی ہے ، تو ساس کا جواب ہوتا ہے کہ ارے مت پوچھو ، میرا بیٹا غلام بن چکا ہے ، ہر وقت بیوی کی خدمت کرتا رہتا ہے، ناشتہ بناکر کھلاتا ہے ، کچھ دنوں بعد جب اسی خاتون کی بیٹی کی شادی ہوئی تو وہ پڑوسی دوبارہ آکر پوچھتا ہے چچی بیٹی کی شادی ہوگئی، داماد کیسا ملا۔ اب سنیئے ارے بابو اللہ ہر کسی کو ایسا داماد دے ، ناشتہ بناکر کھلاتا ہے ، کوئی کام نہیں کرنے دیتا ہے ، رانی بناکر رکھتا ہے ۔
یہ معاشرہ کی تصویر ہے اور سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے، ہر گھر کی تقریباً یہی کہانی ہے ، عورتوں کا سب سے زیادہ استحصال خود عورتیں کرتی ہیں، مرد یعنی سسر یا دیگر رشتے دار بہت کم ہی خواتین اور گھریلو معاملات میں مداخلت کرتے ہیں ، جب نئے رشتے کی بات ہوتی ہے اس وقت بھی یہ خواتین لڑکیوں کو کم پریشان نہیں کرتی ہیں ، مختلف زاویوں سے امتحان لیتی ہیں ، یہاں تک کہ چلاکر ، بیٹھاکر ، کھانا بناکر دیکھتی ہیں کہ لڑکی کیسی ہے ، حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت کی ایک ایک باریکی پر نظر رکھتی ہیں، بیٹا کالا کلوٹا ہو لیکن بہو چاہیئے دودھ کی گریا ۔ مختصر لفظوں میں یہ کہ خواتین کا استحصال خود خواتین کرتی ہیں کوئی اور نہیں ۔
معاشرتی امور کے ساتھ معاشی سطح پر بھی خواتین کا استحصال کیا جاتاہے ،عصر حاضر میں تجارت کو کامیاب بنانے کیلئے عورتوں کا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے ، ہر انڈسٹری کو کامیاب بنانے کیلئے عورتوں کو یوز کیا جاتا ہے، آفس ، دکان، اسٹیج اور کمپنیوں کو مطلوبہ افراد کی نظر میں پُرکشش بنانے کیلئے خصوصی طور پر مخصوص عمر کی خواتین کو بحال کیا جاتاہے ، جب مقاصدکی تکمیل ہوجاتی تو پھر انہیں نکال دیا جاتا ہے، اس کے بعد ان خواتین کا اگلا سفر مزید دشوار ہوجاتا ہے ، اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایسے مقامات اور مخلوط جگہوں پر خواتین کو ملازمت کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے، اسلام نے خواتین کو کسب رزق اور تجارت سے کبھی بھی نہیں روکا ہے لیکن مخلوط معاشرہ اور ایسے مقامات سے بچنے کی ہمیشہ تلقین کی ہے جہاں اسے ایک انسان کی طرح عزت دینے کے بجائے تجارتی اور جنسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنایا جائے، اس لئے خواتین کے کرنے کیلئے ان کاموں کو ترجیح دی گئی جہاں نامحرم سے اختلاط نہ ہو، بر صغیر کے معاشرے میں عرصہ دراز سے خواتین کے درمیان سلائی کا کام معروف ہے جہاں غیروں سے اختلاط کم ہوتا ہے اور معاشی طور پر خواتین کچھ کام بھی کرلیتی ہیں ، آج کی ڈیجیٹل دنیا میں خواتین کیلئے بہت زیادہ سہولت ہوگئی ہے، انٹرنیٹ پر ہزاروں طر ح کا کام ہے ، بزنس کا یہ اس وقت سب سے بڑا مرکز بن گیا ہے ، اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے خواتین بہت کچھ کرسکتی ہیں، لاکھوں روپے کماسکتی ہیں اور یوں گھر بیٹھ کر خواتین معاشی طور پر خود کفیل ہوسکتی ہیں ۔
خواتین کے مسائل اور درپیش مشکلات کے حل کیلئے دنیا بھر میں سمینار اور کانفرنسوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے ، حقوق نسواں اور معاشرہ میں خواتین کی اہمیت پر اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی تنظمیں بھی سمینار کا انعقاد کرچکی ہیں، 23/24 ستمبر 2017 کو جنوبی ہند کے معروف شہر کالی کٹ میں ایک ایسا ہی سمینار ہندوستانی مسلمانوں کا تھنک ٹینک سمجھا جانے والا ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز منعقد کررہا ہے جس کا عنوان ہے ” انسانی معاشرہ کو کامیاب بنانے میں خواتین کا کردار “۔
اس طرح کے سمینار کے انعقاد کی ضرورت پیش آنا اس بات کی علامت ہے معاشرہ میں خواتین کی وہ اہمیت باقی نہیں رہ گئی ہے جو انہیں اسلام نے دی ہے یا پھر کہیں نہ کہیں دیگر مذاہب اور مغربی کلچر سے مسلم معاشرہ بھی متاثر ہوگیا ہے اور خواتین کی اہمیت کو معاشرہ تسلیم نہیں کررہا ہے ورنہ سچائی یہ ہے کہ معاشرہ کا وجود خواتین کے بغیر ناقص و نامکمل ہے، سوسائٹی کی خوبصورتی ، خوشحالی اور کامیابی کیلئے خواتین کو اہمیت دنیا انتہائی ضروری ہے ۔ امید ہے کہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کا یہ سمینار اس باب میں سنگ میل ثابت ہوگا اور معاشرہ کو ایک نئی سمت ملے گی ، خواتین کی اہمیت تسلیم کی جائے گی ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)