روہنگیا پر بھارت کا متضاد موقف

افتخار گیلانی، دہلی
میانمار (سابق برما) میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد اور انکے انخلا کے بحران کے حوالے سے بھارتی حکومت خاصی کنفیوژن کا شکار ہے۔ اس کا مظاہرہ پچھلے ہفتے کچھ یوں ہوا، کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ میانمار سے واپسی پرایک ہی دن میں وزارت داخلہ اور خارجہ نے دوالگ الگ بریفنگ میں متضاد موقف پیش کیا۔ نیوز رومز میں ایڈیٹرز حیران و پریشان کہ آخر کس کو حکومت کا موقف کہہ کر شائع کریں۔ایسا لگتا ہے، کہ بھارت کو عالمی اور علاقائی طاقت بنانے کا دعویٰ کرنے والی مودی حکومت مخمصے کا شکار ہے، کہ بنگلہ دیش اور میانمار میں کس کے موقف کو پذیرائی بخشے۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ ، جن کی دوستی پر مودی کو فخرہے، کا اصرار ہے،کہ علاقائی طاقت ہونے کا مظاہر ہ کرکے بھارت روہنگیا ایشو کو انسانی نگاہ سے دیکھ کر ان کی آبادکار ی اور میانمار واپسی میں مدد کرے۔ دوسر ی طرف میانمار کا موقف ہے، کہ مودی حکومت اس مسئلہ کو اسی سکیورٹی کے چشمہ سے دیکھے جس سے وہ کشمیر کی طرف دیکھتا ہے اور اراکان صوبے کو مسلمان آبادی سے خالی کروانے میں انکی مدد کرے۔ ایسا لگتا ہے، کہ مودی دو خواتین میانمار کی اسٹیٹ کونسلر انگ سان سوچی اور شیخ حسینہ کی سفارتی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پھنس گئے ہیں۔
شاید کم ہی افراد جانتے ہونگے کہ روہنگیا مسلمانوں کے صوبہ اراکان کی حیثیت بھارت کیلئے تقریباً وہی ہے ، جو چین کیلئے بلوچستان کی ہے۔ بلوچستان میں گوادر کی طرز پر بھارت اراکان صوبہ کے دارلحکومت سٹوی میں ایک عالیشان بندر گاہ تعمیر کر رہا ہے۔ یہ پورٹ کالادان ملٹی ماڈل ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ کوریڈور کا حصہ ہے، جو مودی کی Act East پالیسی کا ایک اہم ترین جز ہے۔ تقریباً 29بلین روپے کی مالیت کا یہ پروجیکٹ سٹوی کی بندرگاہ کو کالادان کے دریائی راستے اور بعد میں ایک ہائی وے کے ذریعے خشکی سے محصور بھارت کے شمال مشرقی صوبوں سے جوڑے گا۔ یہ پروجیکٹ کلی طور پر وزارت خارجہ کی تحویل میں ہے۔ بھارتی حدود کے اندر اس پروجیکٹ پر 66فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ مغربی بنگال کی کولکتہ بندرگاہ سے شمال مشرقی صوبوں کو مال پہنچانے میں خاصے وسائل صرف کرنے پڑتے ہیں۔ ٹرک شمال کی طرف خاصا طویل پہاڑی سفر طے کرنے کے بعد نیپال اور بنگلہ دیش کے درمیان سلی گڈی کے پتلے کوریڈور یعنی Chicken Neck سے گزر کر ہی آسام اور دیگر صوبوں تک پہنچ پاتے ہیں۔ اسی طرح بہار کے بدھ گیا شہر سے سٹوی تک ایک گیس پائپ لائن بچھانے کا بھی منصوبہ ہے۔ اراکان صوبہ سے ہو کر ہی بھارت۔میانمار۔تھائی لینڈ کوریڈور گذرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ صوبہ بھارت کی ایک اور اہم سفارتی کاوش خلیج بنگال اشتراک کونسل یعنی BIMSTEC کا بھی ضروری حصہ ہے۔ بنگلہ دیش، میانمار، سری لنکا، تھائی لینڈ، بھوٹان اور نیپال پر مشتمل اس اشتراک کو بھارت خطے میں پاکستان کو الگ تھلگ کرنے اور سارک کے بالمقابل کھڑا کرنے کے لئے خاصی اہمیت دے رہا ہے۔ اسلئے کنفیوژن کی بڑی وجہ اس خطہ میں امن کی خواہش اور دوسر ی طرف موجودہ
حکومت کا مسلمانوں کے بارے متعصب رویہ ہے۔
وزارت داخلہ کی بریفنگ میں میڈیا کو بتانے کی کوشش کی گئی کہ روہنگیا ملیٹنٹ گروپ اقامتہ المجاہدین بھارت کی سکیورٹی کیلئے خطرہ ہے، اور یہ گروپ لشکر طیبہ، جیش محمد، طالبان اور القائدہ کی یمنی شاخ سے جڑاہواہے۔ اسکے علاوہ بتایا گیا، کہ برمی نژاد پاکستانی عبدالقدوس برمی کی قیادت میں حرکت جہاد اسلامی اراکان روہینگیا مسلمانوں کو مذہبی انتہاپسندی کی طرف لے جا رہی ہے۔افسروں نے مزید بتایاکہ مئی 2017 کو بوتھی ڈانگ قصبہ میں دھماکہ خیز مواد لے جاتے ہوئے دو پاکستانی اور دو مقامی روہنگیا شہری ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستانی شہریوں کی شناخت عبد الرحیم اور امانت اللہ کے طور سے کئی گئی، جو پچھلے 20سالوں سے پاک۔افغان سرحدی علاقوں میں سرگرم تھے۔یہ بھی خدشہ ظاہر کیا گیا، کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اس خطے کو عد م استحکام سے دوچار کرنے کیلئے مولانا استاد وزیر اور فرید فیض اللہ کی سرپرستی کر رہی ہے، جو ان کے مطابق ان علاقوں کا کئی بار دورہ کرچکے ہیں۔ مئی 2016ء کو لشکر سے وابسطہ عمر فاروق کو بنگلہ دیشی ایجنسیوں نے چٹاکانگ سے گرفتار بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ لشکر کے دیگر اراکین شاہد محمود اور ندیم اعوان کی بھی بنگلہ دیش میں موجودگی کی خبریں ہیں اور وہ جمعیت الاراکان اور دفاع اراکان کیلئے بھرتیا ں بھی کر چکے ہیں۔بریفنگ کے دوران پوچھا گیا، کہ آخر پاکستان ایک طرف میانمار حکومت کو فوجی ساز و سامان مہیا کر رہا ہے، جنگی جہاز جے ایف 17-تھنڈر بیچنے کی بات چیت کر رہا ہے وہ آخر کیوں میانمار کو غیر مستحکم کروائے گا، تو اسی کے ساتھ ہی بریفنگ ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ۔ وزارت داخلہ نے تقریباً ایسی ہی اطلاعات کو بنیاد بنا کر صوبوں کے سبھی چیف سیکرٹریوں کو خط لکھ کر بھارت میں روہنگیا پناہ گزینوں پر نظر رکھنے اور انکی ملک بدری کی کارروائی مکمل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
اسی دن محض ایک گھنٹہ کے بعد وزارت خارجہ میں ایک اور افسر خم ٹھونک کر بتا رہا تھا کہ وزیر اعظم کی ایما پر روہنگیا پناہ گزینوں کیلئے بھارتی فضائیہ کا ایک جہاز 53ٹن امدادی سامان لیکر ڈھاکہ روانہ ہوگیا ہے۔ اور کل ملا کر بھارت سات ہزار ٹن امدادی سامان روہنگیا کیلئے بھیجے گا۔ بتایا گیا کہ اس بحران سے نمٹنے کیلئے بنگلہ دیش کی ہر ممکن مدد کی جائیگی۔ جب یہ پوچھا گیا، کہ صرف ایک گھنٹہ قبل وزارت داخلہ ان روہنگیا رپناہ گزینوں کو سکیورٹی رسک قرار دے رہی تھی اور ان کے تار عالمی دہشت گرد تنظیموں سے منسلک کئے جارہے تھے، تو اس امداد کا کیا مطلب؟ظاہر ہے کہ ان سوالات کا کوئی جواب ملنا نہیں تھا۔ مگر ذرائع کا کہنا ہے، کہ یہ ایک طرح سے بنگلہ دیش کی تشفی کرنی تھی، جو مودی کے دورہ میانمار کے دوران روہنگیا مسئلہ کو صحیح تناظر میں نہ اٹھانے سے خفا تھا۔ مودی کے دہلی واپس آتے ہی بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر سید معظم علی نے سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کرکے یہ بتایا کہ بھارت ایک علاقائی پاور کی حیثیت سے اس معاملہ سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا اور اسکو میانمار پر دباؤ ڈالنا پڑے گا ، کہ اس مسئلہ کو انسانی زاویہ سے دیکھے۔بنگلہ دیش کی ناراضگی کے مدنظروزیر خارجہ سشما سوراج نے 15ستمبر رات نو بجے شیخ حسینہ سے فون پر با ت کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فون کال کی تفصیلات ڈھاکہ میں بنگلہ دیشی وزیراعظم کے میڈیا ایڈوائزر نے جاری کی۔ نئی دہلی ابھی تک اس بات چیت کی تصدیق اور تردید نہیں کر رہا ۔ سوراج نے حسینہ کو بتایا کہ بھارت ہر ممکن طریقہ کو استعمال کرکے ہر فورم پر میانمار پر دباؤ ڈالے گا۔ اس کے علاوہ بھارتی وزیر خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ بھارت اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کی تجاویزکے نفاذ کے حق میں ہے۔ جن میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادکاری ، ان کو شہریت دینا اور تعمیر و ترقی میں ان کو شامل کرنا ہے۔ بھارت نے یہ آفر بھی دی، کہ وہ اس خطے کی ترقی کیلئے فنڈز فراہمی کیلئے بھی تیار ہے ۔مگر شرط ہے کہ یہ رقوم بدھ اور مسلم آبادی میں آبادی کے تناسب کے حساب سے استعمال کئے جائیں۔ چونکہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ ایجنڈہ کا حصہ رہیگا، جہاں بھارت کیلئے جواب دینا مشکل ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے سربراہ نے پہلے ہی بھارت کو روہنگیا رفوجیوں کے ایشو پر ہدف تنقید بنایا تھا۔ سوراج نیویارک میں اس بار ایک ہفتہ قیام کریں گیں۔ وہ بھارت کی طرف سے دائر دہشت گردی سے متعلق کنونشن کو اقوام متحدہ میں منظور کروانے ، نیز جیش محمد اور لشکر کے سربراہان کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دلوانے کی بھی بھر پو ر سفارتی کوشش کریں گی۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں