جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی، روہنگیا مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنے کی اجازت دی جائے: مولانا ارشد مدنی

نئی دہلی : ( ملت ٹائمز؍عامر ظفر )
روہنگیا پناہ گزینوںکے ساتھ مذہبی و امتیاز برتے بغیر انہیں انسانیت کے ناطے ہندوستان میں رہنے کی اجازت دی جائے نیز مرکزی سرکار کو مسلمان پناہ گزینوں کو بھی اسی گرم جوشی سے اپنانا چاہئے جس طرح سے اس نے ہندﺅوں اور دیگر قوموں کے پناہ گزینوں کو ہندوستان میں پناہ دی ہے ۔یہ درخواست جمعیۃ علما ہند کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دیئے جانے کے تعلق سے سپریم کورٹ میں داخل ایک پٹیشن میں کی گئی ہے ۔
جمعیۃ علماءہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی بذات خود اس رٹ پٹیشن میں مداخلت کار بنے ہیں جس میں ہندوستان میں پناہ گزین دو روہنگیائی مسلمانوں نے حقوق انسانی کے لئے آواز بلند کرنے والے معروف وکیل پرشانت بھوشن کے توسط سے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کرکے انہیں اور دیگر پناہ گزینوں کو ہندوستان سے نکالنے کے فیصلہ پر نظر ثانی اور سپریم کورٹ سے اس معاملے میں دخل دینے کی گذارش کی تھی ۔ محمد سلیم الدین اور محمد شاکر جو فی الحال دہلی کے مضافات میں پناہ گز یںہیں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں ہندوستان میں رہنے کی اجازت دی جائے نیز انہیں ان سبھی سہولیات مہیا کرانے کی اجازت بھی دی جائے جو ایک عام ہندوستانی شہری کو حاصل ہے ۔
چیف جسٹس دیپک مشراءکی سربراہی والی سہ رکنی بینچ جس میں جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ شامل ہیں کے روبرو سینئر وکیل ایف ایس نریمن نے بحث کی اور عدالت کو بین الاقوامی اجلاسوں میں پناہ گزینوں کے تعلق سے منظور کی گئی قراردادوں کا حوالہ دیکر بتایا کہ ہندوستان نے ہمیشہ مظلوموں کی مدد کرنے کا یقین دلایا ہے لہذا رہنگیا پناہ گزینوں کی بھی مدد کی جائے اور انہیں قیام امن تک ہندوستان میں رہنے کی اجازت دی جائے ۔جمعیة علماءکی جانب سے ایڈوکیٹ سلمان خورشید ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی کے ہمراہ آج عدالت میں حاضر تھے لیکن عدالت نے مداخلت کار کی درخواست پر فیصلہ حکومت ہند کے جواب موصول ہونے کے بعد کئے جانے کا حکم نامہ جاری کیا ۔
مرکزی حکومت کے نمائندے نے اس تعلق سے اپنا جواب اور دیگر دستاویزات داخل کرنے کے لیئے عدالت سے وقت طلب کیا جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی 13 اکتوبر تک ملتوی کردی۔ اس سے قبل کی سماعت پر بھی مرکزی حکومت نے جواب داخل نہیں کیا تھا جس کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ عدالت میں مرکز اپنے موقف کا اظہار کرے گی لیکن ایسا ہونہیں سکا۔