مشرّف عالم ذوقی
کچھ کہانیاں تھیں ،ہم جن کو سن کر بچپن میں ٹھہاکے لگاتے تھے .اب وہی کہانیاں ہیں ،لیکن ہم ٹھہاکے نہیں لگاتے .افسوس کرتے ہیں .رنجیدہ ہوتے ہیں .اور یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اندھوں کے قبرستان میں ملک کی مکمل آبادی کو اتار دیا گیا ہے .کچھ یہاں جشن منا رہے ہیں .کچھ مر رہے ہیں .کچھ کو مارا جا رہا ہے .ایک اسٹیج ہے جہاں نہ ختم ہونے والی تاریکی میں کچھ جوکر کھڑے ہیں .ایک بڑا جوکر ہے .ایک اس سے کم مسخرہ ، ایک دانشور جوکر بھی ہے ،جو تاریکی میں بھی نوٹ گنتا ہوا جب قہقہے لگاتا ہے تو قبرستان کے مردے بھی چونک کر اسکی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ آیا یہ مسخرے زمین سے اہے ہیں یا مریخ سے ، چاند سے اہے ہیں یا کسی بلیک ہول سے نکل کر اسٹیج پر جمع ہوئے ہیں .جوکر ہیں ؟ معمولی مسخرے ہیں ؟ کسی ملک کے نمائندے ہیں ؟ یا آسمانی خدا نے شیطانوں کی نیی فوج پیدا کر دی ہے .. کہ جاؤ ، اور ایک زمانے پر اپنے ہونے کا ایسا انکشاف کرو کہ تاریخ کی کتابیں بھی تمہارے لطائف پر شرمندہ ہو سکیں ..جب انسان مریخ اور نیی دنیا و کائنات کے تعاقب میں ہے ،تم اس انسان کی فتوحات پر بریک لگانے کے لئے اس ترقی یافتہ انسان کو اندھوں کے قبرستان میں لے جاؤ .سائنس و ٹکنا لوجی کے دروازے بند کر کے مذہبی عمارات کے سارے پٹ کھول دو .
سو ہم وحشی دنیا سے نکلے اور اندھوں کے مقبروں میں آ گئے —
ایک بادشاہ کا وفادار ایک بندر تھا .ایک دن شکار شکار کھیلتے ہوئے بادشاہ کو نیند آ گی .بندر پاس میں تھا .بندر نے دیکھا کہ ایک مکّھی دیر سے بادشاہ کو پریشان کر رہی ہے .بندر نے تلوار اٹھایی اور ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی کو ہلاک کرنے کے ارادے سے تلوار چلا دی .مکھی اڑ گیی …
کبھی کسی ملک کو مکھی اور پتنگوں کی طرح اڑتے دیکھا ہے آپ نے ؟
ایک بانسری والا تھا جو بین بجا کر گھروں سے چوہوں کو بلایا کرتا تھا .پھر چوہوں کو لے کر آبادی سے دور کسی گھاٹی کی ترایی میں اتار دیتا ..بستی کے لوگوں نے پہلے اس کارنامے کو معجزہ سمجھا .ایک دن وہ بانسری والا دوبارہ آیا .بین بجا کر بستی کے تمام لوگوں کو اندھوں کے قبرستان لے گیا …
ہیلو ..ہیلو ..ہم پندرھویں صدی کے ، اندھوں کے قبرستان سے بول رہے ہیں ..کیا ہماری آواز آپ تک پھچ رہی ہے ..؟
ان حکایت و واقعات کو یہیں چھوڑتے ہیں .کچھ پولیٹکس کی باتیں کرتے ہیں …
سیاست میں روز ہونے والے حادثے جوگندر پال کے ناول نادید کی یاد تازہ کرا دیتے ہیں .نادید کے اندھے بھی دانشمند تھے ،جیسے کرشن چندر کا گدھا جو باضابطہ انگریزی اخبار پڑھتا تھا .اور پنڈت نہرو بھی اس سے ملنے میں فخر محسوس کرتے تھے .کرشن کا گدھا ہندی چینی بھایی بھایی کا نعرہ لگتا ہوا نیفا تک پھچ گیا .جبکہ نیے اندھے چینی کھلونوں سے کھیلتے ہوئے اب تک چین کی سیاست کو سمجھ نہیں پاے .چار برسوں میں صدر جمہوریۂ ہند ،نایب صدر جیسے تمام بڑے عھدے اب حکومت کے پاس ہیں .ابھی حال میں صدر جمھوریہ ہند رام ناتھ کووند نے شہید ٹیپو سلطان پر جو بیان کرناٹک میں دیا ،اسے سمجھنے کی ضرورت ہے .حکومت کے خلاف اب باغی تیور پیدا ہونے لگے ہیں .جسونت سنگھ ،شترو گھن سنہا ،جیسے باغی اب حکومت کے خلاف بولنے لگے ہیں .حکومت کی تمام پالیسی اب اپازیشن کے نشانے پر ہے .راہل کو پپپو بنانے والے جان چکے ہیں کہ پپو پاس ہو گیا اور حکومت اب پپو کے تیور سے بھی پریشان ہے .شیو سینا نے تو راہل کے حق میں فیصلہ بھی سنا دیا .
اس میں شک نہیں کہ حکومت نے ملک کے فروغ سے زیادہ مسلم دشمنی کو پروان چڑھایا .تاج محل ، تیجو مہلے کا مندر نکلا .آر ایس ایس کی اٹھاس کمیٹی اب تیجو مھلے مندر کے لئے فرضی ثبوت جمع کر رہی ہے .دلی کی جامعہ مسجد اور قطب مینار پر بھی بھگوا فتویٰ آ چکا ہے .مغل بادشاہوں پر فتوے پہلے ہی آ چکے .ٹیپو کو نشانہ بنانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے .لیکن سارے تماشے کو ایک شاہی بیان نے نیست و نابود کر ڈالا .کووند نے ٹیپو کو انگریزوں کے خلاف لڑنے والا جانباز بتایا اور آر ایس ایس کے لوگوں میں اس شاہی بیان سے کھلبلی مچ گی ..لیکن سوال ہے یہ شاہی بیان سامنے آیا تو آیا کیسے ؟ یہ بات صاف ہو چکی ہے کہ صدر جمہوریہ ہند کا خطبہ تاریخی دستاویز پر مشتمل خود انکے آفس سے پاس کیا گیا تھا .صدر جمہوریہ آفس نے صاف کیا کہ یہ خطبہ خود کووند نے اپنی نگرانی میں تیار کرایا .اگر ایسا ہے تو اسکا مطلب صاف ہے .
یہ صدر جمہوریہ کے منصب پر بیٹھے ہوئے ایک دلت بادشاہ کا دلت کارڈ ہے .چار برسوں میں دلتوں پر ہونے والے مظالم پر پہلا شاہی رد عمل جسونت سنگھ اور ارون شوری کی بغاوت سے زیادہ نقصان مودی حکومت کو پہچا سکتا ہے .اس منصب پر بیٹھا ہوا آر ایس ایس کا کویی بھی لیڈر ایسا بیان دے ہی نہیں سکتا تھا ..تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اندر ہی اندر خاموش بغاوت کا سلسلہ اب صدر جمہوریہ ہند تک چھلانگ لگا چکا ہے ؟
سچ کو دفن کرنے کی خبر چھتیس گڑھ سے آی ہے .سینئر صحافی ونود ورما کو انکے گھر غازی آباد سے اس لئے گرفتار کیا گیا کہ انکے پاس چھتیس گڑھ حکومت کے وزیر راجیش مونت کی سیکس سی ڈی تھی .یہاں بھی اندھی نگری چوپٹ راجا کی مثال دی جا سکتی ہے ،جس نے جرم کیا ،اسے مسیحا بنایا جا رہا ہے .جس نے جرم کے چہرے سے نقاب اتارا ،اسے انعام دینے کی جگہ سزا سنایی جا رہی ہے .راجستھان حکومت اس سے پہلے زمینوں کے کرپشن میں اس قدر پھنس چکی تھی کہ خود کو اور اپنے افسران کو بچانے لئے نیا قانون لانے والی تھی کہ آپ کسی کی مخالفت نہیں کر سکتے .کسی کے خلاف ایف آی آر نہیں کر سکتے .آر ٹی آی نہیں ڈال سکتے ..
اندھوں کے قبرستان میں شاہی مداخلت نے ذرا سی روشنی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے .آپ سچ کو جس قدر دفن کرنا چاہیں گے ، سچ کی گونج بڑھتی جائے گی …تاج محل کے آگے یوگی کے جھاڑو لگانے کے واقعے پر سوشل ویب سائٹ پر ایک رد عمل یہ بھی تھا کہ مغلوں نے مرنے کے بعد بھی یوگی سے جھاڑو لگوا دیا ..
زندہ قبرستان کی باتیں زندہ مردے ہی جانیں ……. اندھوں کی باتیں اندھے ہی سمجھیں ….
اب حیرت نہیں ہوتی غصّہ آتا ہے .یہ کیا ہو رہا ہے ہمارے ملک میں .؟ .ہمارے وزیر اعظم یا تو غیر ممالک میں رہتے ہیں یا مندروں کے پٹ کھلواتے ہیں .یوگی ایودھیا میں دئے روشن کرنے کے بہانے کروڑوں روپے سواہا کر دیتے ہیں .ہندوستان اب سادھو سنتوں ،سانپ ،مداری اور مندروں کے شہر میں آباد ہے .یہاں اب کسی ساینسٹفک اپروچ کا خیال کرنا بھی پاپ ہے .یہاں کے مشن اب انسانی ارتقا کی تاریخ قلمبند نہیں کریں گے .یہ مشن ملک کو پانچ ہزار برس پیچھے لے جاہیں گے .یہاں مجیرے بجیں گے .آشرم گلزار ہونگے .عوام کو بھجن کے لئے ڈگڈگی دے دی جائے گی .کیرتن چوبیس گھنٹے ہونگے ..پاشان یگ میں انسان محدود وسائل میں زندگی گزارنے کا عادی تھا .ہم ڈیجیٹل انڈیا کو لے کر سٹون ایج کے قبرستان میں آ گئے …افسوس ہم نے پاکستان سے یہ نہیں سیکھا کہ مذھب کی حکومت انسانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے .اگر یہ پاکستان کا رد عمل ہے تو انتہایی برا ، کیونکہ خون صرف سیکولرزم یا جمہوریت کا نہیں ہوگا ،بلکہ تیر بھالوں کے ساتھ ہمیں جنگلوں میں بھیجنے کی پوری تیاری مکمل ہے .
تاریخ کے صفحات ٹھگوں کے غیر معمولی کارناموں سے بھرے پڑے ہیں .ان داستانوں میں امیر علی ٹھگ جیسے ہزار ٹھگوں کے قصّے ملتے ہیں جو کمال مہارت سے لوٹ پاٹ کو انجام دیتے تھے .عام طور پر یہ ٹھگ دریا کنارے پڑاؤ لگاتے تھے .ان کے ساتھ گورکن بھی ہوتا تھا .انیسویں صدی کی پہلی تین دہایاں ان ٹھگوں کے کارناموں سے متاثر رہی .لیکن ایسا نہیں کہ ہندوستان سے ٹھگ چلے گئے .ٹھگ غضب کے اداکار ہوتے تھے .ٹولیوں میں شکار کرتے تھے .پورے پورے قافلے کو قتل کر دیتے تھے .اور عام لوگوں کی طرح ذمہ دار شہری بن کر ہمارے سماج اور معاشرے کا حصّہ تھے .بہرام ٹھگ ،امیر علی ٹھگ جیسے انکے ہزاروں نام تھے .اسی طرح راجستھانی ہندو ٹھگوں کے بھی کچھ قصّے مشہور ہیں .کچھ اپنی عظمت کا احساس دلانے کے لئے نشانیاں بھی چھوڑ جاتے تھے .جیسے مقتول کو لوٹنے کے بعد ایک نیلا رومال نشانی کے لئے چھوڑ دیا .ٹھگ کالی مایی کے پجاری ہوتے تھے .بلی چڑھاتے تھے .عھد جاہلیت کے یہ ٹھگ نا خواندہ اور علمی روشنی سے قطعی بے بہرا تھے .اپنی اصلی شناخت کو پوشیدہ رکھتے ہوئے ٹھگ اپنے کام کو عبادت سمجھ کر انجام دیتے تھے .اس لئے امیر علی جیسے ٹھگ جہاں نماز روزہ کو ضروری سمجھتے تھے وہیں ہندو ٹھگ بھوانی ماتا اور کالی ماتا کو خوش رکھنے کی تدبیر کرتے تھے .
ٹھگ ہندوستان سے غایب نہیں ہوئے وہ بھیس بدل کر اب سیاست میں آ گئے ہیں اور نفرت کا کھیل عبادت کے نام پر انجام رہے ہیں .ہم ایک بار پھر عھد جاہلیت میں اچھال دیے گئے ہیں .
صرف منظرنامہ بدلا ہے .کھیل وہی بلکہ ٹھگی کا یہ کھیل وقت کے ساتھ خوفناک صورت اختیار کر چکا ہے .
ٹھگی وہی ہے .ایجینڈا بدل گیا ہے .جھوٹ اور جملے بازی نے عوام سے آزادی اور جمہوریت کے خوبصورت احساس تک کو چھین لیا ہے .کچھ خوفناک چہرے ہیں اور نفرت کی نفسیات، جسکا استعمال ایک خاص مذھب والوں کو مہرہ بنا کر کیا جا .رہا ہے ..چارلس ڈکینس کے ایک ناول کی یاد آتی ہے …جو اندھا ہے ،وہ اندھا ..نہیں ہے لنگڑا ، لنگڑا نہیں ہے .. جو یوگی ہے وہ یوگی نہیں .جو بھوگی ہے وہی سیاست دان ہے .– غنڈے شھدے ،موالیوں کی تعریفیں بدل گیں –قاتلوں کے لئے بہتر روزگار کے دروازے کھول دیے گئے -خالق کے قاتلوں کو اتر پردیش کی سرکار نے نوکری کا تحفہ دیا .-سوم اور یوگی جیسےلوگ ، ہندوستانی وراثت کو ختم کرنے والے اب تاریخ پڑھا رہے ہیں .نصاب کی کتابوں میں جھوٹ بھر دیا گیا . کرپشن ختم کرنے کا اعلان کرنے والی حکومت نے سکھ رام جیسے کرپٹ سیاست دان کو پارٹی میں جگہ دے کر یہ ظاہر کر دیا کہ پارٹی کے اصول محض جملے بازی کی بنیاد پر ہیں .گرداس پور اور ناندیڑ میں شکست کا سلسلہ شروع ہوا تو نفرت کی سیاست نے تاج محل کو نشانہ بنانا شروع کر دیا .راہل کے منہ میں زبان آ گی تو ونش واد لے کر آ گئے . .ستّر برسوں کی سیاست ہمارا شکار ضرور کرتی رہی لیکن سیاست میں ٹھگی کی واپسی اب جا کر ہوئی ہے .
اب اس کھیل کو عوام سمجھنے لگے ہیں .لیکن یہ داستان نفرت مدھیہ پردیش اور گجرات اسمبلی انتخابات تک محدود نہیں ، آگے آسمان پر مندراتے ہوئے گدھ نظر آ رہے ہیں .مردار کی بوٹیاں نوچنے والے گدھ .انکی شکست خوفناک تباہی کی داستان لے کر بھی آ سکتی ہے .ہمیں اس کے لئے ہوشیار اور خبر دار بھی رہنا .چاہیے …یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ زخمی درندے زیادہ نقصان پہچا سکتے ہیں .فضا بدل رہی ہے .یہ اچھی شروعات کے ساتھ ایک بری خبر بھی ہے ..مستقبل کے زلزلوں کے لئے ہمیں ابھی سے تیار رہنا چاہیے۔