لاس ویگا س اور مین ہٹن کا فرق

قاسم سید

یہ کھلا راز ہے کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی منافع بخش انڈسٹری میں تبدیل ہوگئی۔ امریکی آرڈی نینس فیکٹریاں سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد زنگ کھارہی تھیں تالہ بندی کی نوبت آگئی تھی ان کے پہئے چلنے شروع ہو گئے۔ اربوں ڈالر اسلحہ خریداری کے معاہدے نے انہیں نئی زندگی بخش دی عراق اور افغانستان جیسے چھوٹے ملکوں میں نئے ہتھیاروں کو تجربہ کے طور پر استعمال کیا گیا ان دونوں ممالک پر چڑھائی کے لئے بھی دہشت گردی کی معاونت کے الزام اور کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری کے جرم کی آڑ لی گئی۔ بعد میں پتہ چلا کی کہانی کچھ اور تھی اب تو معمولی عقل رکھنے والا بھی بخوبی سمجھنے لگا ہے کہ آخر تیل کی دولت سے مالا مال صرف مشرق وسطی ہی جہنم کیوں بنایا گیا ہے اگر ان علاقوں میں واقعی دہشت گردی کے عفریت نے قدم جما لئے ہیں تو دہشت گردوں کی سب سے بڑی تعداد بھی ان علاقوں سے ہی آتی مگر حقیقت کچھ اور ہے القاعدہ کا جنم کیوں ہوا، اس کا جنم داتا کون ہے ان کی پرورش کس’ ہاؤس‘ میں ہوئی اور پھر اسے برآمد کردیا گیا جس طرح خطرناک وائرس خاص فضا میں چھوڑے جاتے ہیں جب القاعدہ کی افادیت اور ضرورت ختم ہوگئی تو آئی ایس کا بھوت سامنے آیا اس کا خالق کون ہے۔ کیوں ہے اور کہاں اس سے کام لیا جا رہاہے۔ کون لوگ مارے جا رہے ہیں اگر یہ مان لیا جائے کہ مسلمان ہی دہشت گردہیں تو پھر یہ اپنے دینی ساتھیوں کو ہی کیوں مار رہے ہیں۔ دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار کون ہے۔ حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ نے القاعدہ کا ذمہ دار کس کو قرار دیا تھا سب جانتے ہیں کون سے ’دہشت گرد‘ وائٹ ہاؤس میں مہمان خصوصی بنتے تھے۔ ان کو مجاہدین کا لقب کس نے دیا پھر وہ اچانک دہشت گرد کیوں کہلائے جانے لگے یہ سب تاریخ کا حصہ ہے ۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں جتنی شدت آئی اسی شدت سے دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے، کارپیٹ بمباری میں دہشت گردوں کے اڈے تباہ کردیے جاتے ہیں پھر کچھ نئے اڈے برآمد ہوتے ہیں، ناٹو عام شہریوں کو القاعدہ یا آئی ایس کے لڑاکے سمجھ کر بمباری کرتا ہے اور ان کے بےقصور شہری ثابت ہونے پر معذرت، یہی نہیں کبھی کسی نے سوچا کہ القاعدہ اور آئی ایس نے آج تک اسرائیل کو نشانہ نہیں بنایا جبکہ اسے عالم اسلام کا سب سے بدترین دشمن سمجھا جاتا ہے آخر یہ مجاہدین اسلام کبھی تل ابیب پر کیوں نہیں چڑھ دوڑے، کوئی ایک راکٹ اس طرف کیوں نہیں پھینکا اس بات سے واضح ہوتاہےکہ یہ کس کے ایجنٹ ہیں، کون انہیں پالتا ہے اور ان کا ہدایت کار کون ہے۔ دہرا معیار انصاف سے دور لے جاتا ہے دہشت گردی کے معاملے میں دنیا کے ہر ملک میں دہرا معیار ہے اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح قابل استعمال و قابل عمل ہے۔ لین عیسائی یا یہودی دہشت گردی کہا جاتا ہے؟ اسی طرح اسلامی بم ہے۔ لیکن عیسائی ایٹم بم یا ہندوستان کی ایٹمی صلاحیت کو ہندو ایٹم بنم نہیں کہا جاتا، کیا یہ نہیں بتاتا کہ دنیا کس ذہنیت اور خباثت فکری کے ساتھ دہشت گردی کی تشریح و تعبیر پریقین رکھتی ہے اور اس معاملے میں سب ایک ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی انسانیت کے لئے ناسور ہے۔ کہیں ایک بھی بے قصور مارا جائے وہ صریحاً دہشت گردی ہے دہشت گردی کہیں بھی ہو، کوئی بھی کرے، قابل مذمت ہے۔
مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب فرقہ پرستی اور دہشت گردی کو مذہبی تعصبات کےچشمہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یوروپی ملک میں کوئی دیوانہ راہ چلتے لوگوں پر ٹرک چڑھا دے میٹرو ٹرین میں چاقو بازی کردے اس میں کچھ بے گناہ لوگ مارے جائیں اور پھر ذمہ داری ایسی کوئی تنظیم لے جس پر کوئی مذہبی رنگ چڑھا ہو تو پھر دنیا کی مستعدی دیکھتے بنتی ہے ہندوستان کے راشٹر بھکت سے لے کر دنیا کے ماہرین دہشت گردی اپنے خاص رنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔
دنیا بھر کے رہنما تعزیتی پیغامات کی ترسیل میں مسابقت کا مظاہر کرتے ہیں پھر اس بہانے خاص مذہب اور کمیونٹی پر نفرت کے تیر چھوڑے جاتے ہیں جو پہلے ہی کوئی دہشت گردانہ واقعہ رونما ہونے پر دفاع کے رول میں آجاتی ہے اور یہ تصور کر بیٹھتی ہے کہ اس کا ذمہ دار ہم میں سے ہی کوئی ہے مگر جب ایسا ہی کوئی واقعہ جس میں کرتا دھرتا کوئی اور کریکٹر ہوتو اسے سنکی، دیوانہ، مخبوط الحواس کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں گذشتہ دنوں لاس ویگاس میں ایک ایسے ہی دیوانے نے ایک رقص کی پارٹی میں اندھا دھند فائرنگ کرکے 60 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، قیامت کا منظر تھا، جس میں 500 افراد زخمی ہو گئے، ایک مقامی شخص نے جس کا نام اسٹیون پیڈک تھا۔ اس کی عمر 55 سال تھی، وہ نہ فوجی تھا اور نہ ہی اس کا جرائم کا کوئی پس منظر تھا۔ جس کمرے میں وہ شخص ٹھہرا تھا وہاں خطرناک ترین اسلحہ موجود تھا۔ سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ تنہا شخص اتنا اسلحہ ہوٹل کے 22 ویں فلور تک کیسے لے گیا جو ملک تورا بورا غاروں میں ہوا تک سونگھنے کی صلاحیت کا مالک ہے۔ اس کی خفیہ ایجنسیوں کی آنکھ سے کس طرح محفوظ رہ گیا۔ جب آئی ایس نے اس واقعہ کی ذمہ داری لی تو امریکی تحقیقی اداروں نے اسکو فوراً ہی مسترد کردیا اس کے دعوے کی تردید کرنے میں تھوڑا سا بھی وقت نہیں لیا، شاید وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نہیں کہ اسٹیون پیڈک نامی کوئی شخص آئی ایس سے جڑا ہو سکتا ہے۔60 افراد کو کی جان لینے والے کو سنکی اور پاگل کہہ کر نظر انداز کردیا گیا۔ اگر اس سے ملتی جلتی واردات میں کوئی مقامی مسلمان نکل آئے تو وہ دہشت گرد اور اس کی کارروائی کو سیدھے دہشت گردی کہہ دیا جاتا ہے، لیکن لاس ویگاس اور اس جیسی کارروائیاں کریکٹر دوسرا ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے زمرہ میں شمار نہیں کی جاتیں ۔
لاس ویگاس کا قتل عام سنکی اور خبط الحواس کی کارروائی اور مین ہیٹن پر ٹرک چڑھا کر 8 لوگوں کو قتل کردینے کی واردات دہشت گردی کیونکہ لاس ویگاس کا مجرم اسٹیون پیڈک تھا اور مین ہٹن کا قصور وار سیف اللہ سائیووف ہے جبکہ اس کے تعلق سے بھی خبر آئی ہےکہ ملزم اوبیر کا سابق ڈرائیور تھا اور وہ ذہنی مسائل و نفسیاتی دباؤ سے گذر رہا تھا، پولیس نے اس واقعہ کو دہشت گردانہ بتایا جبکہ لاس ویگاس قتل عام کو دہشت گردی کی واردات جاننے سے انکار کردیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ سیف اللہ کی واردات دہشت گردانہ کارروائی ہے اور پیڈک کا جدید ترین خطرناک سلحہ سے اندھا دھند فائرنگ کرکے 60 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا اس کے دیوانے پن کا نتیجہ تو یہ فرق کیوں ہے؟ کیا ناموں کے فرق سے اسباب بھی الگ ہو جاتے ہیں۔؟
اس منافقانہ اور عیارانہ ذہنیت کی وجہ سے دہشت گردی آج بھی حساس ترین مسئلہ بنی ہے جب اسے ہندو مسلم اور مسلم عیسائی چشمہ سے دیکھا جائے گا اور مذہبی لبادہ اوڑھا کر سد باب کی کوشش ہوں گی اس کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔ جب لاس ویگاس اور مین ہٹن کی وارداتوں کو الگ الگ معانی پہنائیں گے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی، یک رخا نظریہ کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں کر سکتا دہشت گردی کو جو لوگ مشرف بہ اسلام کرتے ہیں وہ بھی اتنے ہی قصور وار ہیں جتنے وارداتوں کو انجام دینے والے جن لوگوں نے اس عفریت کو جنم دیا وہی کھاد فراہم کرتے ہیں، اسے انجام دینے والے تو معمولی کریکٹر بلکہ کٹھ پتلی ہیں ان کی ڈوریں ہلانے والے کوئی اور ہیں جب تک ان ہاتھوں میں ہتھکڑیاں نہیں ہوں گی ،دہشت گردی ختم نہیں ہوگی ۔

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں