سیمیں کرن
اس کالم کا محرک آپ کو بتانا ضروری ہے کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ وضاحت سنے بغیر شاید آپ بھی حؤاس باختہ ہوجائیں ۔ دراصل فیسبکی وارداتوں پہ میں کچھ حواس باختہ سی بیٹھی تھی ، سوچ یہ رہی تھی کہ اسٹیٹس کے نام پہ ایک وضاحت نامہ لگا دوں۔ مگر یہ وضاحت نامہ کئی سمتیں اختیار کررہا تھا … منتشر ، میری طرح!
پھر سوچا اسے کالم کی شکل ہی دے دی جائے، میں کیا وضاحت دوں ان لکھاریوں کو یا پھر اپنے بچوں کو، وہ جو محبت سے مجھے کتابیں اور رسائل بھیجتے ہیں ، اور رائے دینے پر تاخیر ہونے پر خفگی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ خفگی مجھے مزید بوجھل اور حواس باختہ کرجاتی ہے۔خیر الا ما شا اللہ اس میں پہلے بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ میں ضرورت سے کچھ زیادہ بھلکڑ ہوں ۔ میرے دماغ کی چرخی مسلسل مجھے گھمائے رکھتی ہے۔ ایسے میں میرے بچے مجھے آوازیں دیتے رہتے ہیں ، ہاتھوں سےآنکھوں کے سامنے چٹکیاں بجاتے ہیں ۔ اور بعض اوقات کندھا ہلاتے ہیں ، مما واپس آجائیں آپ کس افسانے میں گم ہیں۔
اب میں بچوں کو کیا بتاؤں کہ میں کہاں گم تھی۔ جبکہ مجھے خود ہی خبر نہیں ہوتی کہ میں کس جہان میں تھی، ایسے میں ان محترم لکھاریوں کو کیا وضاحت دوں کہ اے پیارے ساتھیو! کچھ انتظار کرلیا کرو، اور اگر کچھ کوتاہی ہوجائے تو مجھے شرمندہ کرنے کو ایک چھوٹا سا یاداشتی پیغام ہی کافی ہے۔ یہ وضاحتی کالم میرے بچوں کے لیے بھی ہے، جنہیں ایک کھوئی ہوئی ماں ملی ہے۔ جو وقت سے پہلے سٹھیاچکی ہے۔ اور پلٹ کر پوچھتی ہے کہ میں کچن میں کیا لینے آئی تھی۔ کیا میں نے دوا کھا لی ہے، یا نماز پڑھ لی ہے،؟ اور پیارے بچوں یہ ہر گز کوئی دکھاوا نہیں۔
یہ وضاحت ان محترم دوستو کے لیے بھی ہے، کہ ہم اچھے خاصے اولڈ فیشنڈ واقع ہوئے ہیں ، اور فیس بک کی کئی علامات سے ابھی تک ہمارا سمجھوتہ نہیں ہوسکا۔ اب یہ انگوٹھا ہی لے لیجیے، ہمارے بچپن میں یہ چڑانا اور ٹھینگا دکھانا تاؤ دلانے اور لڑائی کا آغاز ہوتا تھا۔ مگر اب اچھے خاصے ہم سے زیادہ پرانے ماڈل کے لوگ دوران گفتگو اس انگوٹھے کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ کیا بڑے کیا بچے، لگاتار انگوٹھا دکھاتے ہیں ، سو آج ہم وضاحت کیے دیتے ہیں کہ آپ ہمیں یہ انگوٹھا دکھا کر تاؤ مت دلائیے اور اس کے استعمال میں پرہیز لازم ہے۔اور ایک وضاحت چلتے چلتے اور بھی کردوں کہ ہم اس انگوٹھے کا استعمال صرف اس وقت کرتے ہیں جب ہمیں کسی سے جان چھڑانی مقصود ہوتی ہے، یہ وضاحت ان کرم فرماؤں کے لیے بھی ہے جو میرے انباکس کو فضول گفتگو اور دل پھینک قسم کے سٹیکرز سے بھر دیتے ہیں ، اور جواب نہ ملنے پر دن میں کئی بار سلام بھیجتے ہیں۔
احباب سلامتی بھیجنے کا شکریہ، فی الحال میں ثابت و سالم سہی، حواس باختہ و مختل سہی، مگر تاحال سلامت ہوں ، اور گر میری سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو آپ تک خبر پہنچا دوں گی، پر وضاحت ان کرم فرماؤں کے لیے بھی ہے، جو فیسبک اور مختلف سوشل سائٹس پر اپنےآپ کو جدید ترین ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے بغیر اجازت کسی بھی وقت کال کرنے کی ناکام کوشش میں منہ کی کھانا، اور اپنی الٹی سیدھی ہولناک بڑھے بالوں اور پھٹی جینز والی تصاویر بھیجنا، کیوں کہ ان کی جدت کا معیار یہی ہے۔
تو حضور جان لیجئے کہ میں شرمین عبید چنائے کی بہن نہیں جو اس پر ہراساں ہوجاؤں، میں اس پر مشتعل ہوکر بلاک کا آپشن استعمال کرنا بخوبی جانتی ہوں ، میرے نزدیک جدت صرف سوچ میں ارتقا کا نام ہے، سو مجھ سے فضول گفتگو میں پرہیز ہی آپ اور میرے لیے سود مند ثابت ہوگا۔ یہ وضاحت نامہ لکھنے کے دوران ہی میرے پڑوسیوں کی کال آگئی، جو کچھ یوں شروع ہوئی ۔۔۔
ویسے تو مجال ہے جو میں نے کبھی کسی پر دھیان دیا ہو، توجہ دی ہو، مجھے تو کسی کے معاملے میں بولنے کی عادت ہی نہیں ، لیکن ایک بات تو بتائیں ۔۔۔ کیا آپ کو کریلے پسند ہیں ، آج پکائے تھے آپ نے۔ اور ہا ں وہ چھوٹے بیٹے نے جو سوٹ پہنا ہے یہ کہاں سے لیا آپ نے۔
ہم یہاں تک پہنچ کر حسبِ معمول حیران و پریشان کھڑے تھے کہ حرام ہو جو ہمیں اپنے گھر والوں کے روز کے پہنے کپڑے یاد رہتے ہوں ، یہ یاد رکھ لینا کیا قابلِ فخر کارنامہ نہیں کہ ہم نے آج کیا پہن رکھا ہے، سو ہماری بتی گُل ہوچکی تھی، اور باجی ہمیں آواز دے کر ہمارے جاگنے کی تصدیق چاہ رہی تھیں ۔۔۔۔ اچھا دوپہر میں آپ کہاں گئیں تھیں، اور صبح صبح آپ سے ملنے کون آیا تھا، ارے ابھی تو سردی آئی ہی نہیں اور آپ نے گرم سوٹ پہن لیا، یہ سوٹ فلاں برینڈ کا ہے نا؟۔۔۔
ہمارے چودہ طبق روشن ہوکر بجھ گئے، مجھے لگا سب وضاحتیں بے کار ہیں، ان وضاحتوں کے آگے۔ آپ جو بھی وضاحت کرلیں ، یہ سب ستارے سیارے ، ہمیں یونہی گردش میں رکھیں گے!