پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
ہندوستان میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے مغلیہ خاندان کے بارے میں کہاجاتاہے کہ تخت شاہی پر قابض ہونے کیلئے وہاں ایک روایت اپنے حریفوں سے تحفظ حاصل کرنے کی بھی بہت مشہور تھی، جسے لگتا تھا کہ بھائی یا قریبی رشتہ دار اقتدار کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے پہلے اس سے نمٹ لیا جاتا تھا، اسی لئے اہل علم کے یہاں اورنگزیب عالمگیر کا اپنے بھائیوں کو قتل کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے، دیگر حکمراں خاندانوں کی تاریخ میں بھی بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کو قتل کرنے کے واقعات ملتے ہیں جس کا مقصد اقتدار کی کشمش کو ختم کرنا اور راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوتا تھا، ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ جہاز حادثہ میں ان کی موت اتفاقی نہیں بلکہ کسی سازش کا شاخسانہ تھی، راجیوگاندھی کو سیاسی واراث بنانے کیلئے یہ راستہ منتخب کیا گیا تھا۔ اقتدار کی کشمکش کے درمیان طاقتور ہونے اور حریفوں سے نمٹنے کا منظر ان دنوں سعودی عرب کے شاہی محل میں بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔
سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نائب ولی عہد کا منصب تخلیق کرکے شاہ سلمان بن عبد العزیز نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو اس پر فائز کیا، کچھ دنوں بعد ولی عہد محمد بن نائف کو برطرف کرکے محمد بن سلمان کو ولی عہد بناکر نائب ولی عہد کا عہدہ ہی ختم کردیا، نو منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے گہری دوستی کی گئی، اسلام کی نئے انداز میں تشریح کی گئی، انتہاء پسند اسلام اور معتد ل اسلام کی نئی اصطلاح گڑھی گئی ، ان کی خواہش کے مطابق سعودی عرب میں تعلیمی ، سماجی نظام کا خاکہ بنایا گیا، پھر 4 نومبر 2017 کو اینٹی کرپشن محکمہ قائم کیا گیا اور چار گھنٹے کی مدت میں 17 با اثر شہزادوں ، متعدد وزراء سمیت 38 لوگوں کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ، انہیں ایام میں 24 گھنٹے کے دوران دو شہزادے کی دو مختلف حادثے میں موت بھی واقع ہوگئی۔ ان تمام واقعات کو ایک عام آدمی کی نگاہ میں اتفاقی واقعہ کہا جاسکتا ہے لیکن سیاست کے پیچ و خم، قوموں کے تاریخ سے واقف کار اور زمانہ شناس ہرگز اسے اتفاقی امر نہیں کہہ سکتے ہیں بلکہ ان کی نگاہیں بہت دور تک دیکھ رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان دنوں پوری دنیا کی توجہ سعودی عرب پر ہے ، شاہی محل میں جاری ہنگامہ آرائی پر سعودی میڈیا کی گہری خاموشی اور عائد پابندیوں کے باوجود عالمی میڈیا میں کچھ نہ کچھ خبریں مسلسل آرہی ہیں ، تجزیے اور تبصرے کئے جارہے ہیں، سعودی عرب میں جو سنجیدہ ہندوستانی قیام پذیر ہیں وہ بھی خاموش ہیں اور دعاء خیر کی اپیل کررہے ہیں۔
سعودی عر ب میں جن 17 شہزادوں کو گرفتار کیا گیا ہے وہ سبھی با اثر، بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک اور نمایاں شناخت رکھنے کے ساتھ بادشاہت کے دعویداروں میں سمجھے جاتے رہے ہیں، گرفتار شدہ شہزادوں میں تین سب سے زیادہ سرخیوں میں ہیں ۔ ایک شہزادہ الولید بن طلال جو دنیا کے امیر ترین اور عظیم سرمایہ دار لوگوں میں سرفہرست ہیں۔ یہ ولی عہد محمد بن سلمان اور امریکی صدر ٹرمپ دونوں کی تنقید کرتے رہے ہیں ، محمد بن سلمان کے وزن 2030 کی بھی امریکی میڈیا میں کھل کر مخالفت کرچکے ہیں،شہزادہ ولید نے امریکہ کے صدارتی الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ کی بھی شدید مخالفت کرتے ہوئے انہیں امریکہ کے لیے باعثِ ذلت قرار دیا تھا، امریکی میڈیا فوکس نیوز نے بھی ٹرمپ کے خلاف زبردست مہم چلائی تھی جس میں شہزادہ ولید کے چھ فیصد شیئرز ہے ، ولید کے ان اقدامات سے ٹرمپ بہت پریشان تھے ، ٹوئٹر پر انہیں دھمکیاں بھی دی تھی، امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ مخاصمت کی تازہ مثال نیویارک کے سرمایہ کاروں کے وفد کی ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات ہے جس میں شہزادہ ولید بھی شامل تھے، اس ملاقات میں شہزادہ ولید اور ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی، اسی کے بعد صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر سمیت وائٹ ہاؤس کے 3 اعلیٰ عہدیداروں نے سعودی عرب کا دورہ اور ایک ہفتہ کے دوران گرفتاری عمل میں آگئی، ٹرمپ نے بھی سلسلہ وار د ٹوئٹ کرکے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ سعودی شہزادوں کی گرفتاری میں ان کی مکمل رضامندی شامل ہے ، محمد بن سلمان کی پشت پر ٹرمپ کا ہاتھ ہے اور جو کچھ وہاں ہورہا ہے وہ صحیح ہے ، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ محمد بن سلمان کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور اپنی گرفت کو مضبوط بنانے کیلئے انہیں ہر طرح کے حربے اپنانے کی مکمل اجازت ملی ہوئی ہے۔
نیو یارک ٹائمز نے اپنی ایک رپوٹ میں شہزادہ ولید بن طلال کی گرفتاری پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہزادہ ولید بن طلال کو گرفتار کرکے سعودی عرب نے درحقیقت دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو چیلنج کیا ہے، اخبار کے مطابق اس گرفتاری کے ساتھ تیل برآمد کرنے والے ملک کی چھاپ مٹانے کیلئے کوشاں سعودی عرب کی کوششوں کو بھی دھچکا لگے گا اور اس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوگا، کیونکہ یہ قدم سعودی عرب میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کے کچھ ہی روز بعد اٹھایا گیا ہے۔شہزادہ ولید بن طلال کی گرفتاری اس لیے بھی سعودی عرب کیلئے نقصان دہ ہو سکتی ہے کہ مملکت خود پر سے تیل کی برآمد کی چھاپ مٹا کر آمدنی کے متبادل ذرائع تلاش کر رہی ہے۔ اسی مقصد کے تحت سعودی حکومت سرکاری کمپنی ارامکو کے شیئرز بھی مارکیٹ میں فروخت کیلئے پیش کرنے والی ہے جو تاریخ کی سب سے بڑی نجکاری ہوگی لیکن شہزادہ ولید کی گرفتاری ارامکو کے شیئرز خریدنے والے سرمایہ کاروں کے دلوں میں شکوک کو جنم دے سکتی ہے۔ شہزاد ہ ولید بن طلال کی سرمایہ کاری دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے، سرمایہ کاری کے باعث انہیں مشرق وسطیٰ کا وارن بفے بھی کہا جاتا ہے۔ بل گیٹس ، رابرٹ مرڈوک اور مائیکل بلومبرگ جیسے بڑے بڑے ارب پتی سرمایہ کار ان کے حلقہ احباب میں شامل ہیں، پیرس کا جارج پنجم ہوٹل ، لندن کا سیوائے ہوٹل ،نیو یارک پلازہ ہوٹل ان کی ملکیت ہے ،انہوں نے ایکور ہوٹل چین میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے ، لندن میں بزنس ڈویلپمنٹ کے ادارے کنارے وہارف میں بھی ان کی سرمایہ کاری ہے۔ پرنس ولید بن طلال کی ٹوئٹر کے ساتھ سوشل میڈیا ویب سائٹ سنیپ چیٹ وغیرہ میں بھی سرمایہ کاری ہے، چین میں آن لائن شاپنگ کی ویب سائٹ جے ڈی ڈاٹ کام میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی میڈیا کارپوریشن فوکس نیوز کے دوسرے سب سے بڑے شیئر ہولڈر ہیں، ان کے پاس کمپنی کے 6 فیصد شیئرز ہیں جو مرڈوک خاندان کے بعد دوسری بڑی سرمایہ کاری ہے، فوکس نیوز اور ٹوئنٹی فرسٹ سنچری فوکس کو الگ الگ کمپنیز بنانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ عالمی سرمایہ کاری میں مسیحا کی حیثیت بھی رکھتے ہیں، 2011 میں روپرٹ مرڈوک کے خاندان کے ٹیلی 2008 میں عالمی اقتصادی بحران کے دوران جب سٹی گروپ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا تو ایسے وقت میں پرنس ولید نے بینک میں سرمایہ کاری بڑھانے کا اعلان کرکے اسے بھی مصیبت سے نکال لیا تھا۔ سعودی عرب سے چلنے والاعرب نیوز بھی شہزادہ ولید کی ذاتی ملکیت ہے۔ عالمی میڈیا کا یہ بھی ماننا ہے کہ ولید کو گرفتار کراکر ٹرمپ اپنی اہانت کا انتقام لیا ہے۔
دوسرے شہزاد ہ متعب بن عبد اللہ ہیں جو بادشاہت کے امیدواروں میں شامل تھے یہ سابق شاہ عبداللہ کے بیٹے ہیں، شاہ عبداللہ نے انہیں خود نیشنل گارڈز کا سربراہ مقرر کیا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ شاہ عبداللہ انہیں مستقبل کی بڑی ذمہ داری کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کی بیشتر عوام بھی شہزادہ متعب بن عبد اللہ کو مستقل کا بادشاہ دیکھنا چاہتی ہے ، سعودی عرب میں برسوں سے مقیم ایک صاحب نے راقم الحروف کو بتایا کہ شہزادہ متعب سنجیدہ مزاج اور دورس مانے جاتے رہے ہیں، عوام کا رحجان ان کی طرف سب سے زیادہ تھا، ٹوئٹر پر بھی شاہ سلمان اور ان کے بیٹے محمد بن سلمان سے زیادہ ان کے فلوروز ہوگئے تھے ، کئی مرتبہ ان کو ولی عہد بنائے جانے کا ٹوئٹر ٹریند بھی چلایا گیا ، پاکستانی اخبار ڈان نیوز کے مطابق شہزادہ متعب سعود خاندان کی شمر شاخ کے بھی آخری فرد سمجھے جاتے ہیں اور آل سعود میں شمر قبیلہ حکمرانی کا سب سے پہلا حق دار ہوتا ہے۔
شہزادہ محمد بن نائف بھی بادشاہت کے دعویدار اور ولی عہد ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مستحق سمجھے جارہے تھے جنہیں پہلے برطرف کرکے نظر بند کردیا، ان کے بیرون ملک نکلنے پر پابندی عائد کی گئی اور قید کی زندگی بسر کررہے ہیں، سعودی میڈیا کی جانب سے ایک ویڈیو نشر کی گئی جس میں شہزادہ محمد بن نائف کو شہزادہ محمد بن سلمان کے ہاتھ کو چومتے ہوئے دیکھا گیا تھا ، بعد میں پتہ چلاکہ یہ ویڈیو فرضی تھی ، شہزادہ محمد بن نائب کا اکاﺅنٹ بھی سیل کردیا گیا ہے، اس کے علاوہ گرفتار شدہ تمام شہزادوں کا ٹوئٹر اکاﺅنٹ بھی ہیک کردیا گیا ہے۔
جن دو شہزادوں کی موت واقع ہوئی وہ بھی بہت اہم اور صاحب حیثیت تھے، یمن کی سرحد کے قریب ہیلی کاپٹر حادثہ کا شکار ہونے والے شہزادہ منصور بن مقرن ایک صوبے کے نائب گورنر تھے جبکہ ان کے والد شہزادہ مقرن ولی عہد رہ چکے ہیں، خلیج ٹائمز اور متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے روزنامہ اتحاد کے حوالے سے یہ خبر گردش کررہی ہے کہ شہزادہ منصور محمد بن سلمان کی واضح مخالفت کرنے لگے تھے ، انہوں نے ایک ہزار سے زائد شخصیات کو خط لکھ کر پوری بغاوت کی تیاری کررہے تھے ۔ اسی طرح شہزادہ عبد العزیز بن فہد کی موت پر سوال اٹھنے لگے ہیں، یہ اسلامی مزاج سے ہم آہنگ اور محمد بن سلمان کے اقدام کے خلاف تھے، ٹرمپ کی سعودی آمد کی بھی انہوں نے مخالفت کی تھی، ٹوئٹر پر ایک مرتبہ انہوں نے لکھا تھا کہ مسلمانوں کو مسجد اقصی حاصل کرنے کی اجازت دے دو، جس کا بعد ان کا ٹوئٹر اکاﺅنٹ ہیک کرلیا گیا تھا ، گذشتہ دنوں کرپشن کے الزام میں گرفتاری کے وقت ا س شہزادے نے احتجاج کیا جس کی پاداش میں فائرنگ کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔
اقتدار کے حصول اور اپنی گرفت مضبوط بنانے کیلئے ایسے اقدامات ناگزیر ہوجاتے ہیں، جواں سال محمد بن سلمان بھی اسی مقصد کے پیش نظر اپنی طاقت کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دورکرہے ہیں، بغاوت کے راستوں کو مضبوطی کے ساتھ کچل رہے ہیں ، خدا کرے یہ تمام مراحل پرامن طریقے سے طے پاجائیں، شاہ سلمان سے محمد بن سلمان کے ہاتھوں میں اقتدار آسانی کے ساتھ منتقل ہوجائے ورنہ خدا نہ خواستہ اگر بغاوت ہوگئی تو پھر مشرق وسطی کا بحران بہت گہرا ہوجائے اور جزیزة العرب میں اقتدار کیلئے ایک نئی جنگ شروع ہوجائے گی۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر اور مشرق وسطی کے تجزیہ نگار ہیں)
stqasmi@gmail.com