حضرت الاستاذ مولانا محمد اسلم قاسمی کی زندگی بھی باعث فخرتھی اور موت بھی باعث فخررہی:مفتی محفوظ الرحمن عثمانی

نئی دہلی(ملت ٹائمز/پریس ریلیز)
جگر گوشہ حکیم الاسلام ،دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ حدیث ،ناظم تعلیمات اور صدرالمدرسین مولانا محمد اسلم قاسمی کےانتقال پرملال کو ملت اسلامیہ ہندیہ کیلئے عطیم علمی خسارہ قرار دیتے ہوئے معروف علم دین مفتی محفوظ الرحمن عثمانی بانی و مہتمم جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول بہار نے کہاکہ حضرت الاستاد کی علمی ،دینی،دعوتی، اصلاحی اورتدریسی خدمات کا دائرہ کئی دہائی پر محیط ہے۔انہوں نے کہاکہ حضرت الاستاد خاندان قاسمی کے اہم چشم و چراغ تھے اور اپنے جدامجد حجۃ الا سلام الامام محمد قاسم نانوتوی والد محترم حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمیؒ بانی و مہتمم دارالعلوم دیوبند کےعلمی وارث تھے،آپ نے زندگی کی آخری سانس تک اپنے اجداد و اسلاف سے حاصل ہوئی اس علمی وراثت کو طالبان علوم نبوت میں بانٹتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا اور خالق حقیقی سے جاملے۔
مفتی عثمانی نے کہاکہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہو گا، ہر زندہ کو موت ضرور آئے گی چاہے،جلد آئے یا دیر سے، موت سے نجات ممکن نہیں،لیکن ایسی زندگی اور ایسی موت، جس پر فخر کیا جا سکے، ہر شخص کے حصے میں نہیں آتی مگر حضرت الاستاد کی زندگی بھی باعث فخر اور موت بھی باعث فخر تھی ۔
خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی،حضرت مولانا محمدسفیان قاسمی،جناب ڈاکٹر فاروق صاحب قاسمی سے اور دیگر پسماندگان سے اظہار تعزیت پیش کرتے ہوئے مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے کہاکہ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت الاستاد کی خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے اور اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، نیزدارالعلوم وقف دیوبند کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔انہوں نے کہاکہ یقینا خاندان قاسمی کیلئے یہ ایک عظیم سانحہ ہے اور اس خلا کو پر نہیں کیا جاسکتا تاہم باری تعالیٰ سے دعا گوں کہ آپ حضرات کو صبر جمیل کی توفیق دے(آمین)
مفتی عثمانی نےہاکہ حضرت الاستاد مولانا محمد اسلم قاسمی کے سانحہ ارتحال کی اطلاع ملتے ہی جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول بہار میں تعلیمی سرگرمیاں روک دی گئیں اور ایصال و ثواب کے لئے ’دعائیہ مجلس کا اہتما کیا گیا جس میں اساتذہ اور طلبہ نے قرآن پاک کی تلاوت اورآپ کے بلندیہ درجات کے لئے دعائیں کی ۔اساتذہ کرام نے مختصرا آپ کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے بلندی درجات کی دعا فرمائی