نئی دہلی(ملت ٹائمز)
اترپردیش کے باغپت میں چلتی ٹرین میں جن تین لوگوں پر 7 سے زائد انتہاء پسندوں حملہ کیاتھااب تک ان کے خلاف پولس کوئی بھی عملی کاروائی نہیں ہوسکی ہے، نہ اب کسی بھی ایک ملزم کی گرفتاری عمل میں آسکی ہے اور نہ ہی اس بارے میں پولس اور انتظامیہ فکر مند نظر آرہی ہے ۔
جون 2017 سے اب تک ٹرینوں میں ہجومی تشدد کا یہ چوتھا واقعہ ہے ،جون میں دہلی سے پلول جارہے جنید خان پر ایک ہجوم نے ٹرین میں حملہ کرکے شہید کردیا تھا ،ان کے بھائیوں کی بھی بے دردی سے پٹائی کی تھی ،انہیں دنوں بجنور میں چلتی ٹرین میں ایک پولس نے ایک روزہ دار مسلمان خاتون کی عصمت دری کی تھی ،جولائی میں مین پوری میں خواتین اور بچہ سمیت دس افراد پر مشتمل ایک فیملی کو چلتی پسنجر ٹرین میں زدوکوب کیا گیا تھا ، ہجوم نے ان پر حملہ کیا او رپوری فیملی کو نشانہ بنایا،اسی پسنجر ٹرین میں ایک اورواقعہ ابھی اکتوبر میں پیش آیاہے جہاں تین افراد پر مشتمل ایک فیملی پر شدت پسند گروپ کی جانب سے شدید حملہ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ گذشتہ کل باغپت کی مسجد کے امام اور ان دیگر ساتھیوں پر سمیت تین آدمی پر چلتی ٹرین میں انتہاءپسند نے حملہ کردیاتھا،رپوٹ کے مطابق حملہ آوروں سے سر ڈھانپنے کے معاملے پر بحث ہوئی جس کے بعد انہوں نے علما پر لوہے کی سلاخوں اور لاٹھیوں سے حملہ کیا اور ٹرین سے اتر گئے۔ حملے کا نشانہ بننے والے مولوی گلزار،محمد اسرار اور ابوبکر کو ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ باغپت کے سپرنٹنڈنٹ پولیس جے پرکاش سنگھ کا کہنا تھا کہ نئی دہلی سے گزشتہ رات مسافر ٹرین میں سوار ہونے والے تینوں افراد باغ پت میں اپنے گاﺅں جارہے تھے جس دوران ان کی چند نوجوانوں سے بحث ہوئی اور لڑکوں نے مبینہ طور پر ان پر تشدد کیا۔ واقعے کا مقدمہ نامعلوم ملزموں کے خلاف درج کرلیا گیا جبکہ مقدمہ ریلوے پولیس کو منتقل کردیا گیا۔





